حکومت نے آرمی چیف کی ایکسٹنشن کے نوٹیفکیشن میں ایک مرتبہ پھر سنگین غلطی کردی، شدید شرمندگی کا سامنا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی لیکن بدھ کو سماعت کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ایکسٹنشن سے متعلق عدالت میں پیش کیے گئے نوٹیفکیشن میں ایک اورسنگین غلطی سامنے آگئی ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جبکہ دیگر ججوں میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ شامل تھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ نوٹیفکیشن کے مطابق 29 نومبر سے دوبارہ تعیناتی ہوگی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ 29 نومبر کو جنرل باجوہ آرمی سٹاف کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمانڈ کی تبدیلی تک جنرل باجوہ دوبارہ ریٹائر نہیں ہونگے، صدر نے دستخط دوبارہ تعیناتی کے ہی کیے ہیں،وزارت کی سطح پر شاید نوٹیفکیشن میں توسیع لکھا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا سمری میں لکھا ہے 29 نومبر کو جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے، حکومت کہتی ہے جنرل باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں، سمری کے مطابق وزیراعظم نے توسیع کی سفارش ہی نہیں کی، سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 243 کے تحت تعیناتی ہوتی ہے توسیع نہیں،

کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہوگئی،کیا کسی نے سمری اور نوٹیفکشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا،عدالت کے ساتھ ایک اور صاف بات کریں،جو سٹاف کا حصہ نہیں وہ آرمی چیف کیسے بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دوبارہ تعیناتی کا مطلب ہے پہلے تعیناتی ختم ہوگئی، پاک فوج کا معاشرے میں بہت احترام ہے،وزارت قانون اور کابینہ ڈویژن کم از کم سمری اور نوٹیفکیشن تو پڑھیں، فوجیوں نے خود آ کر تو سمری نہیں ڈرافٹ کرنی، کوئی نہیں چاہتا کہ آرمی بغیر سربراہ کے رہے لیکن شاید وزارت داخلہ چاہتی ہے ، آرمی چیف کو شٹل کاک نہ بنائیں، آرمی چیف کیساتھ یہ ہورہاہے تو کل صدر اور وزیراعظم کیساتھ کیا ہوگا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.