سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصغر خان کیس کو بند نہ کرنے کا فیصلہ
مرحوم اصغر خان کے لواحقین نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے درخواست کی ہے کہ اصغر خان کیس بند نہیں ہونا چاہیے۔
اصغر خان کے لواحقین کی جانب سے ان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا۔
اصغر خان کی اہلیہ، صاحبزادے علی اصغر، نسرین خٹک اور شیریں اعوان نے مشترکہ جواب میں کہا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے اصغر خان کیس کی انکوائری ختم کرنے کی سفارش کو مسترد کرتے ہیں۔
اصغر خان کے لواحقین نے کہا کہ اصغر خان کیس میں ایف آئی اے انکوائری ختم نہیں ہونی چاہیے، اصغر خان کا خاندان کیس کا حتمی انجام چاہتا ہے۔
لواحقین نے اپنے جواب میں استدعا کی کہ کیس کے ٹرائل کے بعد آنے والا نتیجہ پاکستان کی عوام کے سامنے رکھا جائے۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے نے اصغر خان کیس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اصغر خان کے لواحقین کو کیس کی پیروی کرنے یا نہ کرنے سے متعلق جواب جمع کرانے کے لیے 31 دسمبر کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
اصغر خان کیس کا پس منظر
1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔
خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔
پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔
اس معاملے پر ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔
اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔
سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔
مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔
سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔