عاشرعظیم نے بھی نیب کا کچا چٹھا کھول دیا
معروف اداکار و ہدایت کار عاشرعظیم نے نیب میں پیشی کے دوران ہونے والی تفتیش سے پردہ اٹھادیا۔
عاشر عظیم نے ایک ویڈیو کے ذریعے اپنے ساتھ ہونی والی نا انصافی کی آپ بیتی بتاتے ہوئے کہا کہ 2008 کی بات ہے جب میں کسٹم میں تھا تب ہماری ٹیم نے سوفٹ ایئر بنایا تھا اور یہ مکمل سسٹم کسٹم کو بنا کر دے دیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پریشانی بھی تھی۔
عاشر عظیم نے بتایا کہ 2008 میں ہی ہمیں نیب کراچی کی جانب سے 289 کنٹینرز مسنگ ہونے کے کیس میں پیش ہونے کے لئے نوٹس آگیا تھا جس کے بعد ہم اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں چلے گئے جہاں ہم سے الگ الگ تحقیقات کی گئی۔ ہمیں تحقیقات کے دوران بتایا گیا کہ جو سسٹم ہم نے بنا تھا اس میں رات کے اندھیرے میں مخصوص وقت پر کنٹینرز کی انٹری درج ہوتی ہے اور پھر وہ قانونی طور پر کلیئر ہو جاتے ہیں اور اس معاملے میں میرا نام آرہا ہے۔
دھواں ڈرامہ کے اداکار نے یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے موقف میں کہا کہ جس کسی نے بھی یہ شکایت کی ہے کنٹینرز 290 نہیں بلکہ 289 مسنگ ہیں تو انہیں کسی ایک کنٹینرز کا نمبر بھی پتا ہوگا تاکہ ہم وہ نمبر اپنے سسٹم میں چیک کریں تو سب کچھا چٹھا کھل کر سامنے آجائے گا۔ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ کنٹینر نمبر تو نہیں ہے۔
اداکار نے کہا کہ کئی دن تک اُن کے دفتر کا چکر لگتا رہا اور پھر ایک دن انہوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ غلط ہے اور ہم یہ کیس ہیڈ کوارٹر کو بند کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں۔ جس پر میں نے کہا کہ اس معاملے میں ہمارا وقت ضائع ہوا کیوں کہ ہم بے گناہ تھے لیکن جس نے ہم پر الزامات لگائے کیا اُن سے تحقیقات نہیں ہوں گی تو آفیسر نے بات رفع دفع کردی۔
عاشر عظیم کا کہنا تھا کہ تین سال بعد ایک بار پھر نیب کی جانب سے اسی کیس کے حوالے سے بھیجا گیا نوٹس موصول ہوا اور پھر میں کئی مہینوں تک اُن کے آفس جاتا رہا ہم سے تفتیش ہوتی رہی اور اس دوران ہمیں جاب سے معطل بھی کردیا گیا اور نام ای سی ایل میں بھی ڈال دیا گیا تھا لیکن اس دوران تک ہمیں ایک کنٹینرز کا نمبر تک نہیں بتایا گیا اور پھر کئی سوالات پر مشتمل سوال نامہ تھما دیا گیا جس میں تمام تفصیلات بتانے کا کہا گیا اور پھر یہ سب بھی مہیا کردیا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ سب بالکل ٹھیک ہے کیس بند ہو جائے گا۔
اداکار نے کہا کہ 2015 میں ایک بار پھر نیب کا نوٹس آیا اُس دوران نیب نے یہ کیس بد عنوانی کے سب سے بڑے کیس میں شامل کرکے سپریم کورٹ کو بھی بھیج دیا اور تفتیش کے دوران ہم سے یہ بھی کہا گیا کہ سافٹ ویئر بنانے کا کام جس کمپنی کو دیا گیا انہیں 11 ملین ڈالر ادا کئے گئے جس پر میں نے کہا کہ جس دوران 2010 میں کمپنی کو پیسے ادا کئے گئے اس دوران تو میں معطل تھا جس کے بعد تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ یہ کیس ہمارے خلاف جائے گا اور ریفرنس دائر کیا جائے گا۔