آسیہ مسیح کیس میں نکالے گئے شبہات —– مفتی محمد رفیع عثمانی کی طرف سے بڑا دعوی سامنے آ گیا

مفتی اعظم پاکستان اور ملک کے ممتاز دینی ادارے دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہاہے کہ آسیہ مسیح کیس میں چیف جسٹس نے فیصلہ آنکھیں بند کرکے نہیں دیا،انہوں نے آسیہ مسیح کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بہت سے شبہات نکالے جوبلاشبہ قابل غور ہیں،اس کیس میں سپریم کورٹ کے ججز سےغلطیاں بھی ہوئی ہونگی لیکن بغیر غورکئے انتہا پسندانہ فیصلہ بھی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے،جذبات کی رو میں بہہ کر کسی کو جان سے مار دینا یا کسی کی املاک کو نقصان پہنچانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ،حکومت آسیہ مسیح کیس کے فیصلے کے خلاف فوری نظر ثانی اپیل دائر کرے اور لارجر بنچ تشکیل دیا جائے جس میں شریعہ کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی شامل کیا جائے ،حکومت کے بعض ذمہ داران بہت بڑا خطر ناک فیصلہ کرناچاہ رہے ہیں،اگر انہوں نے سپریم کورٹ کی نظرثانی کے بغیر آسیہ مسیح کوملک سے باہر بھیج دیا تو پاکستان میں بہت بڑا طوفان اٹھے گا،اس کے بعد علمابھی کہیں گے کہ حکومت مجرم ہے۔

تفصیلا ت کے مطابق دارالعلوم کراچی میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ اس وقت ہمارے ملک کے حالات سب کے سامنے ہیں ، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا تو دوسرا سامنے آجاتا ہے ، ہمارے وطن میں توہین رسالت ﷺ کا مسئلہ طوفان بن کر اٹھا ہے،حضور ﷺ کی ذات اقدس سے مومنین کی عقیدت ومحبت اور عشق ایسی چیز ہے کہ اس کوبیان کرنے کی ضرورت نہیں، کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی ذات اور ناموس کو اپنی جان سے بھی عزیرنہ سمجھتا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ کاارشاد ہے کہ ”تم میں سے کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے نزدیک اس کے جان ومال ، اولاد اورماں باپ سے بڑھ کرعزیز نہ ہوجاؤں “ ہر مومن اس بات کو اعزاز سمجھتاہے کہ اس کو ناموس رسالت ﷺ کے لئے قربانی کا موقع ملے ، سپریم کورٹ کے فیصلے سے لوگوں کے دل دکھے ہیں اورہمارا بھی دل دکھا ہواہے ، ہم نے اس مسئلے کے حل بھی پیش کئے لیکن ان پر عمل نہیں ہوا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جوفیصلہ کیا اور اس پر دلائل دیئے ہیں وہ بے دلیل نہیں،سپریم کورٹ نے بہت سے نکات اٹھائے ہیں جو علما، فقہا کیلئے قابل غور ہیں،کیونکہ

کوئی چوری کرلے توفوری طور پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹ دیاجاتا بلکہ اس کے لئے بھی بڑی پابندیاں ہوتی ہیں، شرعی سزاؤں کے بارے میں اتنی احتیاط ہوتی ہے کہ حدیث میں آتاہے کہ حتی الوسع مجرم کوحد سے بچاؤ، فقہا نے لکھاہے کہ ہرچوری پر ہاتھ نہیں کٹتے ، چوری کے کچھ قوانین ہیں ، یعنی ہاتھ اس وقت کاٹا جائے جب کوئی مال کو محفوظ جگہ سے نکالے اور اس پر دوگواہ بھی ہوں تو پھر ہاتھ کٹیں گے۔انہوں نے کہا کہ کسی قسم کا شبہ نہ ہواور گواہوں کے بیانات میں کوئی تضاد نہ ہوتو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں لیکن اگر دوآدمی چور ہیں ایک باہر کھڑا ہے اورایک اندر ، ایک نے چوری کامال نکال کر باہر رکھا اوردوسرے نے اٹھا لیاتو اس پر فقہا کہتے ہیں کہ یہ وہ چوری نہیں کی گئی جس پر ہاتھ کٹتے ہیں، یہاں پر ایک آدمی نے مال محفوظ جگہ سے نکالا نہیں بلکہ دروازے پر رکھا ہے اوردوسرے نے اس کو اندر سے نہیں نکالا بلکہ باہر سے اٹھایا ہے ، اس پر دونوں کوشبے کا فائدہ دیدیا جائے گا اور ہاتھ نہیں کٹیں گے ۔

انہوں نے کہاکہ جس وقت ضیا ءالحق کے دور میں حدود آرڈیننس کانفاذ ہورہا تھا تو یہ مسائل پیش نظر تھے کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو اسلامی قوانین بدنام ہوجائیں گے او ر جس پر شبہ ہوا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ نے جو قانون دیاہے اس میں غلطی نہیں ہوتی ،اسلامی قانون اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بنایا ہے ،ذرا سا شبہ ہوجائے گا تو حد ساکت ہوجائے گی ، یہ اسلامی عدالت کا قانون ہے کہ شبے کافائدہ مجرم کوپہنچتا ہے اگر شبہ پیدا ہوجائے گا تو سزا ختم ہوجائے گی یا اس میں کمی آجائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہی نکتہ اٹھایا ہے ، سپریم کورٹ کا فیصلہ کرنے والے بھی مسلمان ہیں اور ان کے دلوں میں ا للہ کے رسول ﷺکی محبت جاگزیں ہوگی اورججز کی جانب سے کہا بھی گیا ہے کہ ہمار ی تو اللہ کے رسول ﷺ کی ناموس پر جانیں قربان ہوجائیں ،یہ اور بات ہے کہ جج کی رائے میں غلطی ہوجائے ، اس طرح کے معاملات میں غلطیاں ہوجایا کرتی ہیں اوران کی تلافی بھی ہوجاتی ہے ، چنانچہ انہوں نے مجرمہ کو شبے کا فائدہ دیا اور ایک شبہ نہیں بلکہ بہت سے شبہات نکالے جوبلاشبہ قابل غور ہیں،یہاں اس کے بیان کے سلسلے میں شبہ پیدا ہوا ہے، اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم جذبات کی رو میں بہہ جائیں اورکسی کوجان سے ماردیں ، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ، چیف جسٹس نے فیصلہ آنکھیں بند کرکے نہیں کردیا جوباتیں لکھی ہیں وہ قابل غور ہیں ، ہم یہ نہیں کہتے کہ ساری صحیح ہیں ، ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہونگی لیکن بغیر غورکئے انتہا پسندانہ فیصلہ بھی اسلام کے اصول کے خلاف ہے ۔

مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے اور اس اپیل پر بحث کیلئے لارجر بنچ بنایا جائے ، ہم نے تو یہ بھی کہا تھا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ حضورﷺ کی ناموس کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کیلئے بھی بہتر ہوگا کہ لارجر بنچ میں شرعی عدالت کے ججوں کوبھی شامل کرلیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کوبھی شامل کیا جائے کیونکہ معاملہ بہت اہم ہے اور پورے احترام کے ساتھ اس پر نظر ثانی کی جائے،اگر پھر وہ بھی سزا کوبرقرار رکھتی ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کوقتل کیا جائے اور سستی کرنا حرام ہوگا لیکن اگر یہ فیصلہ ہوگیا کہ اس معاملے میں شبہات ہیں تو پھر اس کورہا کرنا ہوگا،یہ بھی شریعت کاقانون ہے۔ مفتی رفیع عثمانی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا ،ہم کون

ہوتے ہیں فیصلہ کرنیوالے؟ لیکن یہ حکومت کی بے حسی کی باتیں ہیں کہ ایک ہفتہ ہوچلاہے لیکن اپیل دائر نہیں کی گئی اور آج اخبار میں آیاہے کہ حکومت کے ایک ذمہ دار نے کہاہے کہ اپیل دائر کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ کیسے ذمہ داری نہیں ہے؟ ملک میں طوفان پھیلا ہواہے اور امن و امان قائم کرنے کیلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر اپیل دائر کرے ۔انہوں نے کہا کہ اس قسم کے جرائم میں مدعی حکومت ہوتی ہے اوراب اس کاحق ہے کہ سپریم کورٹ سے کہا جائے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے اورججوں کی تعداد بڑھائی جائے لیکن اگر اس پر پھر یہی فیصلہ آجائے تو تسلیم کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ آ ج بے حسی کا یہ حال ہے کہ ایک ہفتہ گزر گیا اورلوگوں کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے؟ لیکن اپیل دائر نہیں کی گئی اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ آسیہ مسیح کورہا کردیا جائے گا اور اسکے خاندان کو یورپ سے دعوتیں آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اس کانام ای سی ایل پرڈالا جائے جب تک سپریم کورٹ کافیصلہ نہیں ہوتا ، وہ پاکستان سے باہر نہ جا سکے ، اگر فیصلہ ہوجائے تواس کو قتل کردیاجائے گا اوراگربرات کا فیصلہ ہوگیاتو ٹھیک ہے پھر اس کو باہر کے ملک میں لے جائیں لیکن ہماری حکومت نے ابھی تک یہ کام نہیں کیا، نہ نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے اور نہ آسیہ مسیح کانام ای سی ایل پر ڈالا ہے جس سے شبہات پیدا ہورہے ہیں کہ ہماری حکومت کے بعض ذمہ داران بہت بڑا خطر ناک فیصلہ کرناچاہ رہے ہیں، اگر انہوں نے سپریم کورٹ کی نظرثانی کے بغیر آسیہ مسیح کوملک سے باہر بھیج دیا تو پاکستان میں بہت بڑا طوفان اٹھے گا ، اس کے بعد علمابھی کہیں گے کہ حکومت مجرم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی

پارٹی کے دشمن نہیں ہیں ،ہمارے پاس منبر رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اورہم یہاں سے وہی بات کرنے کے پابند ہیں جوتاجدار دوعالم ﷺ کی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کی حدود میں ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جذبات میں آکر جذبہ تونیکی کا ہولیکن حرام کام کرنے لگیں ، جیسا کہ یہاں پاکستان میں ہوا ،جلاؤ گھیراؤ ہوا اورسرکار ی املا ک کو نقصان پہنچا ، سرکاری املاک ہماری ہیں کیونکہ وہ ہمارے ٹیکس سے بنائی گئی ہیں، اربوں کانقصان ہواجس کاذمہ دارکون ہوگا ؟ ہڑتالوں کی وجہ سے لوگ کمانے سے محروم ہوگئے ، کاروبار تباہ ہوگئے ، بیمار علاج سے محروم رہ گئے ، اس کی اجازت کیسے تھی ؟۔ انہوں نے کہ کہا کہ بلاشبہ رسول ﷺ کی ناموس ایسی چیز ہے کہ اس پر ہم سب کچھ قربان کردیں لیکن اللہ کے قانون کوقربان کرنا جائز نہیں ہوگا ، اللہ کے قانون کی حفاطت کرنی پڑے گی ، جذبات میں آکر اللہ کے قانون کی حفاظت چھوڑ دیں ایسا ممکن نہیں، قرآن مجید میں مومن کے قتل کوبہت بڑا جرم قرار دیا گیاہے اور کہا گیا کہ جوکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے گا اس کی جگہ جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ۔

مفتی رفیع عثمانی کا کہنا تھا کہ قتلِ مومن آسان بات نہیں ہے ،حالیہ مظاہروں میں لوگوں کی جانیں بھی گئی ہیں،یہ کتنا بڑا جرم ہے ؟اللہ تعالیٰ ہمیں فہم و فراست دے اور ہمارے حکمرانوں کوبھی تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ہمار ے اور ملک کے اوپر رحم کریں،فتنے کودبایا جائے اور اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے اور فیصلہ ہونے تک آسیہ مسیح کانام ای سی ایل پر ڈالاجائے ،اگرایسا نہ کیا گیا تو پھر ہمیں خوف ہے کہ پاکستان میں پھر پتہ نہیں کیا ہونے والاہے؟ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی اندرونی و بیرونی فتنوں سے حفاظت فرمائے ۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.