مجھے یہ فیصلہ قبول ہے ، آسیہ مسیح کا بھی رد عمل سامنے آگیا
آسیہ بی بی کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے پر مذہبی جماعتوں نے ملک بھر میں احتجاج کیا جس کے باعث ملک میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ حکومت نے ملک بھر میں مظاہرین کے خلاف آپریشن کی بجائے ان سے مذاکرات کرنے کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت گذشتہ روز حکومتی نمائندوں نے مظاہرین کی قیادت سے مذاکرات کی کوشش کی ۔مظاہری نے مطالبہ کیا کہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ حکومت نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم
کورٹ آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم دے چکی ہے ، آسیہ بی بی کے خلاف فی الحال کوئی کیس نہیں ہے جس کے تحت ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔البتہ نظر ثانی کی اپیل دائر کر کے یہ استدعا کی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی پٹیشن دائر کی گئی ، جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔جس کے بعد احتجاجی مظاہرین
آسیہ بی بی کے خلاف احتجاجی دھرنے ختم کرنے پر رضا مند ہوگئے ۔بعد ازاں لاہور میں موجود مظاہرین کی قیادت نے حکومت کے سامنے دھرنا اور احتجاج ختم کرنے کے لیے کڑی شرائط رکھیں جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت آسیہ بی بی کے خللاف سپریم کورٹ میں خود نظرثانی درخواست دائر کرے۔ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے جبکہ تحریک لبیک اور دیگر جماعتوں کے تمام گرفتار کارکنان پر مقدمے ختم کرکے انہیں رہا کیا جائے۔تاہم اب اس سارے معاملے پر آسیہ بی بی کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے ۔ آسیہ بی بی نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی قبول کیا جائے گا۔ آسیہ بی بی کے
مطابق ای سی ایل میں نام ڈالنے سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی ، اور سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے قبول کیا جائے گا۔