آپ کی عدالت میں میراکیس زیرسماعت ہے مگر۔۔۔غیر قانونی تقرری کیس میں عطا الحق قاسمی کا چیف جسٹس ثاقب نثارکے نام کھلاخط، نیا پنڈورا باکس کھول دیا
معروف ادیب عطاءالحق قاسمی نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے پی ٹی وی میں اپنی بطور چیئرمین تعیناتی کے حوالے سے حقائق واضح کیے ہیں۔ انہوں نے عدالت کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالوں کے جوابات بھی اسی کھلے خط میں درج کیے ہیں اور ،
اپنے انتظامی تجربے کے حوالے سے بھی عدالت کو آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے کالم کی بجائے خود عدالت میں پیش ہو کر اپنی معروضات پیش کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی طبیعت خراب ہے جس کے باعث وہ کالم میں یہ سب باتیں درج کر رہے ہیں۔ عطاءالحق قاسمی نے اپنے کالم میں لکھا ہے۔۔۔” عالی مرتبت چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار صاحب!السلام علیکم ورحمة اللہ !آپ کی عدالت میں پی ٹی وی میں چیئرمین کے طور پر میری اپائنٹمنٹ کا کیس زیرسماعت ہے۔ اس دوران یہ بات کہی گئی کہ کیا وہ اس عہدے کی شرائط پر پورا اترتے تھے، کیا میں میڈیا پرسن ہوں، میری کوالیفکیشنز کیا ہیں، انتظامی تجربہ کتنا ہے، ان سب سوالوں کے جواب میری محترم وکیل نے بھی دیئے، سینیٹر پرویز رشید نے بھی اس حوالے سے بہت ٹھوس دلائل دیئے۔ اب آپ نے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب اور سیکرٹری خزانہ وقار مسعود صاحب کو بھی 9 جولائی کو عدالت میں طلب کیا ہے۔یہ قابلِ احترام شخصیات اپنا نقطہ نظر پیش کریں گی مگر اس حوالے سے میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ چیئرمین کے لئے انتظامی تجربہ ضروری نہیں ہے۔ اس کا کام وژن دینا ہے اور ٹیلی ویڑن کے اسٹاف کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ میرا انتظامی تجربہ بھی بہت وسیع ہے جس کا بیان آگے چل کر ہو گا۔
فی الحال صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میری تعیناتی سے قبل پی ٹی وی پروڈکشن ہاﺅسز سے پروگرام خریدتی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے 26اسٹوڈیوز ویران پڑے ہوئے تھے اور کم و بیش چھ ہزار ملازمین بیکار بیٹھے تھے۔میں نے اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات جن کے پاس ایم ڈی کا اضافی عہدہ بھی تھا، کو مشورہ دیا کہ باہر سے پروگرام خریدنے کے بجائے ان ہاﺅس پروڈکشن ہونا چاہئے۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا چنانچہ میرے دور میں ہماری اپنی ثقافتی اقدار کے پیش نظر پروگرام تیار کئے گئے اور یوں ہمارے پروڈیوسرز، کیمرہ مین اور دوسرا اسٹاف جن کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا تھا، نے ایک نئے عزم کے ساتھ اس کام بیڑا اٹھایا اور الحمد للہ میرے استعفیٰ کے بعد سے بھی ابھی تک کم و بیش تمام پروگرام ہمارے اپنے تیار کردہ ہیں اور یوں ہمارے اسٹوڈیوز جو ایک عرصے سے ویران پڑے تھے، وہاں اب یہ صورتحال ہے کہ اسٹوڈیوز کے مسلسل مصروف رہنے کی وجہ سے ریکارڈنگ کی ڈیٹ ملنا مشکل ہو گئی ہے۔ گردیزی صاحب کے اصرار پر میں نے ایک بالکل نئی طرز کا پروگرام ”کھوئے ہوﺅں کی جستجو“ بھی شروع کیا، جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے ہر شعبے کے مشاہیر سے ان کے موجودہ مقام تک پہنچنے کے لئے ان کی جدوجہد، محنت اور عزم کی داستانیں ناظرین کو سنائیں تاکہ وہ جان سکیں کہ،
ان کے خواب صرف خواب دیکھتے رہنے سے پورے نہیں ہو سکتے، اس کے لئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے۔ ان پروگراموں کی تعداد 60کے قریب ہے اور یہ ایک خزانہ ہے جو آرکائیو کو ملا ہے اور یہ کسی اور چینل کے پاس نہیں۔ میں نے اس پروگرام کا کوئی معاوضہ نہیں لیا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پروگرام کا سارا بجٹ، اس کے پروموز جو ہر پروگرام کے چلائے جاتے ہیں اور کچھ دوسری چیزیں جن پر پی ٹی وی کا ایک دھیلا بھی خرچ نہیں ہوا، ان کے فرضی نرخ لگا کر میرے کھاتے میں ڈال دیئے جو کروڑوں میں بنتے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ افراد یہ الزام سنتے ہیں تو وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ آخر الزام ہے کیا، ہر پروگرام کا یہی طریق کار ہوتا ہے۔عدالت عظمیٰ میں میری کوالیفکیشن کی بابت بھی پوچھا گیا، تو عرض ہے کہ میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو لٹریچر کا ڈگری ہولڈر ہوں۔ پوچھا گیا کہ میرا میڈیا سے کیا تعلق ہے، تو عرض ہے کہ 35برس تک نوائے وقت اور اب پندرہ برس سے جنگ کا کالم نگار ہوں۔ سیاسی موضوعات پر کم کم لکھتا ہوں، مزاح نگاری کی لت پڑنے کی وجہ سے میرے کالموں کی اکثریت ہلکے پھلکے موضوعات اور اسی طرزِ نگارش پر بنی ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز سے میرا تعلق 35سال پر محیط ہے۔
میں نے پی ٹی وی اور دوسرے چینلز کے لئے جو ڈرامے لکھے ان میں سے خواجہ اینڈ سنز اور شب دیگ کلاسیک میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف چینلز کے ٹاک شوز میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ اپنے ڈراموں کی ریکارڈنگ کے دوران میں اسٹوڈیو میںخود موجود ہوتا تھا اور الیکٹرونک میڈیا کا یہ تجربہ پی ٹی وی کی چیئرمین شپ کے دوران میرے بہت کام آیا۔ آپ نے کوالیفکیشن پوچھی ہے تو میں آپ کا تھوڑا سا وقت اور لوں گا۔ الحمد للہ میں نے زندگی میں جو ہزاروں صفحات لکھے ہیں، ان کی پذیرائی کا یہ عالم ہے کہ مجھ پر یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے اور میرے فن پر پچیس کے قریب تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔اس کے علاوہ میری کتابوں کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ یہ ترجمے ترکی، انگریزی اور گورمکھی میں ہو چکے ہیں اور مصر کی الازہر یونیورسٹی کی ایک طالبہ عربی میں میری ایک کتاب کا ترجمہ کر رہی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں برسہا برس تک سرکاری ٹی وی پر بین رہا کیونکہ میں ماضی کے سول اور فوجی حکمرانوں کا شدید ناقد رہا ہوں۔ صرف یہی نہیں اس تمام عرصے میں میری ادبی خدمات پر کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔
مگرا میرا ایوارڈ کروڑوں قارئین کی محبت ہے جس نے مجھے نصف صدی سے مالامال کر رکھا ہے۔عدالت میں میری انتظامی صلاحیتوں کی بابت بھی سوال اٹھا تھا تو عرض ہے کہ میں ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کا سفیر رہا ہوں۔ ناروے کی تعیناتی کے دوران ہماری برآمدات میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ ناروے کے پاکستانی انڈین
چاول استعمال کرتے تھے میں نے اس کے سدباب کے لئے پاکستانی دکانداروں کا اجلاس بلایا، یومِ پاکستان پر ایک بہت بڑے اجتماع میں اپنے ہم وطنوں سے حلف لیا کہ وہ آئندہ پاکستانی چاول استعمال کریں گے۔ تقریب کے بعد کچھ پاکستانی میرے پاس آئے اور کہا شادی بیاہ پر پکوان بنانے کے والے اصرار کرتے ہیں کہ انڈین چاول بہتر ہیں، اچھا کھانا پکوانا ہے تو ہمیں انڈین چاول مہیا کریں۔ یہ سن کر میں نے باورچیوں کو اپنے گھر مدعو کیا اور انہیں قائل کیا کہ پاکستانی چاول انڈین چاول سے بدرجہا بہتر ہیں، اس کے علاوہ بطور پاکستانی بھی آپ کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ الحمد للہ ان کاوشوں کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد پاکستانی چاولوں کی فروخت نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ میں نے ایک اجلاس میں ایکسپورٹرز کو بھی بلایا اور انہیں سمجھایا کہ آپ صرف پاکستانیوں کو نہیں، نارویجن عوام کو بھی پاکستانی چاول خریدنے کی طرف مائل کریں۔
میں نے کہا کہ پاکستانی خاندانوں کی شکل میں رہتے ہیں چنانچہ وہ بڑی پیکنگ والے چاول خریدتے ہیں جبکہ نارویجنز اکیلے یا میاں بیوی یا ایک دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں، آپ ان کے لئے ایک کلو یا دو کلو کی پیکنگ تیار کریں۔ اس مشورے پر عمل کرنے سے ہمارے چاولوں کی برآمد میں مزید اضافہ ہوا۔ایک دن چند پاکستانی دکاندار میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کی مسلسل کاوشوں سے انڈین چاولوں کا کوئی خریدارنہیں رہا۔ ہم نے پہلے سے جو چاول خریدے ہوئے تھے وہ جوں کے توں پڑے ہیں ، ہمیں وہ تو بیچنے کی اجازت دیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ اپنا حلف توڑ کر بیچنا چاہتے ہیں تو بیچیں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔اب اگر میں تھائی لینڈ کا ذکر بھی شروع کروں تو یہ کالم، کالم نہیں رہے گا مقالہ بن جائے گا۔ صرف اتنا بتاتا چلوں کہ وہاں میں نے اپنے کمرشل اتاشی طاہر رضا نقوی سے کہا کہ آپ مجھے روزانہ رپورٹ دیں کہ آج آپ اپنے فرائض کے سلسلے میں کہاں کہاں گئے اور ان ملاقاتوں کا ماحصل کیا تھا۔ الحمد للہ وہاں ہماری برآمدات میں 36فیصد اضافہ ہوا اور جب میں مشرف دور میں واپس پاکستان آیا ،
حالانکہ مجھے اشارہ ملا تھا کہ آپ چاہیں تو اپنے فرائض جاری رکھ سکتے ہیں مگر مجھے یہ قبول نہیں تھا، واپسی پر ایک روز مجھے طاہر رضا نقوی کا خط موصول ہوا کہ انہیں بہترین کارکردگی پر ایوارڈ ملا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ یہ ایوارڈ آپ کا ہے کیونکہ میں نے جو کامیابی حاصل کی، آپ کی رہنمائی میں حاصل کی۔قصہ مختصر میں نے بنکاک میں کشمیر پر مذاکرات کرائے جس میں تھائی دانشوروں نے کشمیر کے مسئلہ پاکستانی موقف کی بھرپور حمایت کی۔ بنکاک سے دو اخبار بنکاک پوسٹ اور دی نیشن نکلتے تھے جن کا رویہ پاکستان کے خلاف معاندانہ تھا۔ میں ان سے ان کے دفتر ملنے گیا اور انہیں اپنے گھر کھانے پر بھی مدعو کیا۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ان دونوں اخبارات کے رویے میں واضح تبدیلی نظر آئی۔ اس دوران میں نے تھائی علماءسے بھی ان کے مدرسوں میں جا کر ملاقاتیں کیں اور مختلف مسائل پر ان کو بریف کیا۔ واضح رہے تھائی لینڈ میں، مجھے صرف تین مہینے کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ایک دفعہ پھر تھوڑا سا ذکر ناروے کا، پاکستان میں ناروے کے سفیر اسلام آباد میں ہمارے دفتر خارجہ ایک میٹنگ کے سلسلے میں گئے تو انہوں نے میری کارکردگی کی بہت تعریف کی۔
ہمارے دفتر خارجہ نے اس میٹنگ کے منٹس مجھے بھیجے جس میں وہ لائنیں ہائی لائٹ کی گئی تھیں جو ناروے کے سفیر نے میری کارکردگی کے بارے میں کہی تھیں۔ اس طرح ناروے میں دو سال اپنی خدمات ادا کرنے کے بعد میری تعیناتی تھائی لینڈ کی گئی تو ناروے کے دفتر خارجہ نے میرے اعزاز میں الوداعی ضیافت کا اہتمام کیا جس میں سیکرٹری خارجہ نے میری کارکردگی کی کھل کر تعریف کی۔ اوسلو کے لارڈ میئر جو ناروے کے وزیر دفاع بھی رہ چکے تھے، انہوں نے سیکرٹری کو چٹ بھیجی کہ وہ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، اجازت ملنے پر انہوں نے میرے بارے میں جو کچھ کہا وہ اتنی تعریف کا حامل تھا کہ مجھے اس کا بیان
کچھ زیادہ ہی خود ستائی سا لگتا ہے۔عالی مرتبت چیف جسٹس صاحب، ان سطور کا مقصد صرف اپنا مختصر تعارف کرانا تھا تاکہ آپ کو اپ ڈیٹ کرسکوں اور اپنی تعیناتی کے حوالے سے آپ کے دل میں جو شکوک ہیں وہ رفع کر سکوں، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ میں نے نہ صرف اپنی جیب سے لاکھوں روپے کارکنوں کی سہولت کے لئے خرچ کئے بلکہ ایک بہت بڑا ایسا کام بھی کیا جس کے نتیجے میں پی ٹی وی کی سالانہ آمدنی میں ستر کروڑ روپے کا اضافہ ہو گیا اور یہ اضافہ مستقل رہے گا۔ پی ٹی وی کا سارا عملہ مجھے دعائیں دیتا ہے کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو رہی تھی۔ جنابِ والا یہ معروضات میں عدالت میں حاضر ہو کر خود پیش کرنا چاہتا تھا مگر علالت کی وجہ سے نہ کر سکا جس کے لئے معذرت خواہ ہوں! “(س)