ایٹم بم اور ایف 16 طیاروں کے حوالے سے پاکستان کے اصل عزائم کیا تھے ؟ 1980 کی سی آئی اے کی رپورٹوں میں دھماکہ خیز انکشافات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف ناکافی اقدامات کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسلام آباد کو فراہم کی جانے والی عسکری مالی امداد بند کر دی تھی۔حالیہ عرصے کے دوران امریکا افغانستان میں قیام امن اور وہاں تعینات اپنی افواج کی واپسی کے لیے
نامور مضمون نگار شمشیر حیدر انٹرنیشنل ویب سائٹ ڈوئچے ویلے کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کوشاں بھی ہے۔ امریکا کی افغانستان سے متعلق پالیسی میں اب کی بار بھی پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال سن اسی کی دہائی میں بھی تھی لیکن تب سوویت یونین پاکستان اور امریکا کا مشترکہ دشمن تصور کیا جا رہا تھا۔ سرد جنگ کے اُسی دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب روس پاکستان پر افغانستان کے معاملات میں’بے جا مداخلت‘ کا الزام عائد کر رہا تھا اور امریکا، پاکستان کا اتحادی ہونے کے ناطے، پاکستان کا دفاع کر رہا تھا۔امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی سن 1980 کی دہائی کی خفیہ فائلوں کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں کئی اہم حقائق سامنے آتے ہیں۔ سن1981 میں تیار کردہ ایک خفیہ دستاویز ’پاکستان کیا چاہتا ہے‘ میں لکھا گیا ہے کہ اسلام آباد سوویت یونین اور بھارت سے لاحق ممکنہ خطرے کے تناظر میں فوری طور پر ایف سولہ طیاروں سمیت امریکی اسلحے کی فراہمی کا خواہش مند ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارتی احتجاج کے باعث امریکا ایف سولہ طیاروں کی پاکستان کو فراہمی کا اعلان کرنے سے ہچکچا رہا ہے جس کے باعث پاکستان کو امریکا کے ’قابل بھروسہ‘ ہونے پر خدشات ہیں۔ سی آئی اے کی یکم ستمبر سن 1981 کو تیار کردہ ایک خفیہ دستاویز کا عنوان ’پاکستانی جوہری پروگرام پر بھارت کا ردِ عمل‘ ہے۔ اس دستاویز کے مطابق اسرائیل کی جانب سے عراقی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ایف سولہ طیاروں کے استعمال کے بعد بھارت کو تشویش ہے کہ پاکستان امریکا
سے ایف سولہ طیارے حاصل کرنے کے بعد بھارتی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ پاکستان تیزی سے جوہری تجربہ کرنے کی جانب گامزن تھا اور امریکیوں کا خیال تھا اس ردِ عمل میں بھارت بھی ایک اور ایٹمی تجربہ ضرور کرے گا۔ اُسی برس مئی کے مہینے تک بھارت نے تھر کے علاقے میں زیر زمین ایٹمی تجربے کے لیے تمام تیاریاں بھی مکمل کر لی تھیں۔ امریکی خفیہ ادارے کے مطابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی فوری طور پر پاکستانی ایٹمی تجربے کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ نہیں سمجھ رہی تھیں اور اس کے جواب میں پاکستانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بجائے جوابی ایٹمی تجربہ کرنے کے حق میں تھیں۔ تاہم بھارتی فوج کے منصوبہ ساز اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر پاکستانی فضائیہ نے ایف سولہ طیارے حاصل کر لیے تو پاکستان بھارت کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے بھارتی فضائیہ کی صلاحیتیں ناکافی ہیں۔ بھارتی اندازوں کے مطابق پاکستان اسی برس یعنی 1981 میں ہی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کرنے والا تھا۔ اس صورت حال میں امریکی خفیہ اداروں کا خیال تھا کہ پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی سے پہلے ہی بھارت پاکستانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر پاکستان نے جوہری تجربہ کر لیا تو صورت حال تیزی سے خراب ہو سکتی ہے اور بھارت کے علاوہ روس بھی پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ اکتوبر 1981ء میں تیار کردہ ایک خفیہ میمورنڈم کے مکمل مندرجات تو عام نہیں کیے گئے لیکن اس میمورنڈم کے مطابق امریکی انڈر سیکرٹری بکلے کا خیال تھا کہ پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی ہی جنرل ضیا کو امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور کرے گی۔
انہوں نے جنرل ضیا کو واضح انداز میں آگاہ کر دیا تھا کہ اگر پاکستان نے جوہری تجربہ کیا تو یہ پاک امریکا تعلقات کی نفی کے مترادف ہو گا۔ سن 1982 میں تیار کردہ ایک اور خفیہ دستاویز میں لکھا گیا تھا کہ پاکستان کو جدید ہتھیار فراہم نہ کیے گئے تو اسلام آباد کے امریکا کے قابل بھروسہ اتحادی ہونے کے بارے میں پائے جانے والے خدشات حقیقت کا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکا کو یہ بھی خدشتہ تھا کہ جدید ہتھیار نہ دینے کی صورت میں پاکستان افغان پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے جس سے خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اُسی برس امریکا پاکستان کو ایف سولہ طیارے فراہم کرنے والا تھا تاہم پاکستان، طیاروں کے ساتھ ساتھ جدید راڈار بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ امریکا کو خدشہ تھا کہ راڈار فراہم کرنے سے چین کو بھی اس جدید امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ سی آئی اے کی جانب سے سن 1982 میں امریکی صدر کو بھیجا گیا ایک میمورنڈم اس وقت پاکستان پر حکمران جنرل ضیا کے دورہ امریکا اور پاکستانی ایٹمی پروگرام سے متعلق ہے۔ میمورنڈم میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان اور جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن پاک امریکا تعلقات کی راہ میں امریکا کی ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام تیزی سے آگے بڑھا رہا تھا جو کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کی امریکی پالیسی سے براہ راست متصادم تھا۔ پاکستان اور بھارت میں طاقت کے توازن کے بارے میں تیار کردہ ایک رپورٹ میں سی آئی اے نے لکھا کہ سن 1985 کے آغاز میں پاکستان کئی جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے اور بھارتی فوجی منصوبہ ساز اس بات پر قائل ہیں کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار جلد نصب کر دے گا۔