عورت کی آزادی؟
جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے ایک کیس میں سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا: لوگ مجھے مسجد کا خطیب کہیں یا مولوی، مگر میں ایسے لبرلزسے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ وہ معاشرے کو کدھر لے جارہے ہیں؟ ایک لڑکا، لڑکی کو بھگا کر لایا اور الٹا لڑکی کے باپ کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی کہ ہمیں اس سے جان کا خطرہ ہے اور پولیس پروٹیکشن نہیں دے رہی۔
فاضل جج نے لڑکے سے پوچھا اسے شرم نہیں آئی کسی کی لڑکی کو بھگا کر لے آیا اور پھر لڑکی کے والدین کو ذلیل کر رہا ہے۔ فاضل جج نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تمہاری کتنی بہنیں ہیں؟ اس نے جواب دیا میری تین بہنیں ہیں۔ اس پر فاضل جج نے کہا کہ کیا وہ پسند کرے گا کہ اس کی تینوں بہنیں تین لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر شادی کرلیں؟ اس پر لڑکے نے اپنی حرکت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شرعی حق کا استعمال کیا ہے۔ فاضل جج نے پوچھا کہ وہ دن میں کتنی نمازیں پڑھتا ہے؟ جس پر وہ لڑکا کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس سے مذکورہ لڑکے کے ’’پابندِ شریعت‘‘ ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اسلام میں ولی کے بغیر نکاح کی اجازت نہ ہونے میں بھی ایک حکمت پنہاں ہے مگر آج لبرل اور سیکولر قوتوں نے اسلامی ملک کو بے حیا معاشرہ بنانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔
آج اگر ان کا راستہ نہ روکا گیا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان مغرب کو بھی خدانخواستہ پیچھے چھوڑ جائے گا۔ آج اسلامی روایت دم توڑتی جارہی ہے جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ ہمارے سامنے روزانہ سڑک کنارے سرعام جسم فروشی ہوتی ہے، ہمارے نوجوان لو تھائی جینز پہن کر نیم برہنہ حالت میں موٹر سائیکلیں چلاتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے بالوں کے اسٹائل بناکر پھرتے ہیں (جنہیں ہمارے بزرگ اتنے بیہودہ نام سے پکارتے تھے کہ جسے یہاں دہرایا نہیں جاسکتا) لیکن اب یہ عام رواج ہے۔
یہ نئی نسل کیا لڑے گی اپنی زمین کےلیےجو نائی کی دکان پر جاکر نئے اسٹائل میں بال کٹواتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں کوئی کنگ ہے تو کوئی چارمنگ، کوئی مون ہے۔ ارے کوئی انسان بھی ہے؟ سارا دن لڑکیوں سے فون پر بات کرتے ہیں اور میں حیران ہوں ایسے والدین پر جو اپنی بیٹیوں سے اتنے بے خبر ہیں۔ کوتاہیاں اپنی ہوتی ہیں اور الزام آتا ہے کمپیوٹر پر، موبائلز پر اور انٹرنیٹ پر۔
وہ عورتیں جو باہر نکلتی ہیں انہیں بنتے سنورتے وقت یہ سوچنا چاہیے کہ باہر کی دنیا اندھی نہیں؛ اور مفت شراب تو قاضی بھی نہیں چھوڑتا۔
عورت، مرد کی کمزوری ہے اور وہ عورت سے فائدہ کیوں نہ اٹھائے؟
لوگوں کو یہ فکر نہیں رہی کہ ان کے گھروں کی بچیاں نئے نئے موبائل فونز کہاں سے لارہی ہیں؟ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کی بچیوں اور بچوں کے دوست کتنے اچھے ہیں جو انہیں مہنگے تحائف دیتے ہیں۔ ایک لمحے کو اگر وہ یہ سوچیں کہ جو موبائل ان کی بیٹی نے اٹھایا ہے اس کی قیمت نقد نہیں بلکہ جسمانی مشقت سے چکائی ہے، تو وہ شرم سے ڈوب مریں۔ اور جہاں اقدار پر پیسہ حاوی ہوجائے وہاں غیرت پر بے غیرتی غالب آجاتی ہے… اور یہی ہو رہا ہے۔
یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک ہم خود اس روش کو ترک نہ کردیں۔
یہ جھوٹ ہے کہ آج کا انسان عورت کی آزادی چاہتا ہے، بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ عورت تک پہنچنے کی آزادی جاتا ہے۔ یہی سچ ہے… اور یہی ہم سب کو ماننا بھی پڑے گا، ہم چاہیں یا نہ چاہیں۔