وہ وقت جب بحری جہاز میں بیٹھنے سے قبل خواتین کو برہنہ کیا جاتا تھا
گئے وقتوں میں بحری جہاز کے سفر کے دوران کئی توہم پرستانہ اقدامات کیے جاتے تھے کہ آج اگر لوگوں کو بتائے جائیں تو وہ سراپا حیرت بن جائیں۔ ویب سائٹ boaterexam.com کے مطابق اس زمانے میں خواتین کو بحری جہاز میں سوار نہیں ہونے دیا جاتا تھا اور جنہیں بٹھایا جاتا انہیں پہلے برہنہ کیا جاتا تھا جو تمام سفر بغیر لباس کے طے کرتی تھیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ خواتین اپنے ساتھ نحوست لے کر آتی ہے۔ وہ جہاز رانوں کی توجہ اپنی طرف کر لیتی ہیں جس سے جہاز
حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تاہم برہنہ خواتین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا تھا جس کے پیچھے یہ توہم پرستانہ بات چھپی تھی کہ لوگ سمجھتے تھے کہ برہنہ خواتین کو دیکھ کر سمندر پرسکون رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی طور پر جہازوں کی پیشانی پر ایک برہنہ خاتون کی تصویر یا مجسمہ بھی لگایا جاتا تھا۔ اس تصویر کے متعلق یہی گمان تھا کہ اس کی برہنہ چھاتی سمندر کو پرسکون کرتی ہے اور اس کی کھلی آنکھیں جہاز رانوں کو محفوظ راستہ دکھاتی ہیں۔
1700ءتک جہازوں میں کیلا لے کر آنا بھی ممنوع تھا اور کہا جاتا تھا کہ اگر جہاز میں کیلے موجود ہوں تو پورا جہاز لاپتہ ہو جاتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 16صدی عیسوی میں جتنے جہاز لاپتہ ہوئے ان میں زیادہ تر ایسے کارگو جہاز تھے جن میں کیلے لدے ہوئے تھے، چنانچہ لوگوں نے کیلے کو منحوس قرار دے کر اس کی جہاز پر آمد روک دی۔ اس زمانے میں جہاز میں سیٹی بجانا بھی ممنوع تھا۔ اس کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ سیٹی کی آواز سن کر سمندر میں طوفان اٹھتے
ہیں۔ آسمان کی رنگت کے متعلق بھی کئی طرح کے عقائد پائے جاتے تھے۔ اگر رات کو آسمان سرخ ہوتا تو جہاز ران خوش ہوتے۔ اگر صبح کے وقت سرخ ہوتا تو اسے اپنے لیے خطرے کی وارننگ سمجھتے۔ اسی حوالے سے ایک قدیم کہاوت بھی ہے کہ ’غروب کے وقت آسمان سرخ ہو تو وہ اگلے روز ایک خوبصورت دن کا اشارہ دیتا ہے اور اگر صبح کے وقت آسمان سرخ ہو تو وہ خراب موسم کی نشاندہی کرتا ہے۔“