جب یہودیوں کو رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ بیٹی اوربیٹے کے پیدا ہونے کا سبب کون سی چیز ہوتی ہے ،ایسا منطقی جواب جس کے سامنے سائنس بھی سرجھکا دیتی ہے
اسلام پر تنقید کرنے والے تو ایک جانب خود مسلمان بھی ان باتوں سے غافل ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے تو اس میں بیان کردہ ہر حکمت کا اپنا سائسنی وجود بھی ایک حقیقت رکھتا ہے لیکن انسان اپنے محدود علم سے اس کو پہچان نہیں پاتا ۔
اسلام اور سائنس کو متصادم قراردینے والوں نے تو یہ یقین کررکھا ہے کہ اسلام جن حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتا اور انہیں کھول کر بیان بھی کرتا ہے یہ نعوذ باللہ فرضی ہیں حالانکہ یہ لوگ فرض المرض میں گرفتار ہیں ،ان کی کوتاہ بینی اور تنگ دلی انہیں اسلام کو سمجھنے نہیں دیتی ۔جیسا کہ قرآن میں بیٹوں اور بیٹیوں کی پیدائش بارے اللہ کا فرمان ہے کہ وہ جسے چاہے بیٹا دے جسے چاہے بیٹیاں ،اس پر میڈیکل سائنس پر ایمان رکھنے والے کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس نے تو اس پر زیادہ تفصیل بیان کررکھی ہے کہ بچوں کی جنس پر ایکس اور وائے کروموسوم کیا اہمیت رکھتے ہیں اور اس پر کسی کو قدرت نہیں ہے حالانکہ یہی نظریہ چودہ سو سال پہلے رسول کریم ﷺ نے کھول کر بیان کردیا تھا ۔
یہ واقعہ سائنسی تحقیق سے بہت پہلے کا ہے جب بچوں کی پیدائش کو جانچنے کے لئے کوئی لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ موجود نہیں تھے ۔یہ علم اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو عطا کیا تھا کہ آپﷺ یہودیوں کے اس گروہ کے سوال پر یہ حقیقت بیان فرمائیں کہ لڑکی اور لڑکے کی پیدائش میں عورت کے بیضے اور مرد کے جرثومے کیا کردار ادا کرتے ہیں ۔صحیح بخاری میں اس سے متعلقہ حدیث کے مطابق
یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام قبول کرنے کے لئے ایسے سوالات پوچھے تھے کہ جن میں ایک سوال یہ بھی تھا ”اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ “آپﷺ نے فرمایا ”سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے۔
“ دوسری حدیث کے الفاظ یوں ہیں” جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے“ یہ جواب سنتے ہی یہودیوں کے سردار نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔یہ حضرت عبداللہ بن سلام تھے جو اللہ کے رسول ﷺ کی حکیمانہ تاویل سن کر کلمہ شہادت پکار اٹھے تھے ۔انہوں نے عرض کیا ”حضورﷺ
یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے ملامت کریں گے۔ آپﷺ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے“ اس کے بعد آپﷺ کے پاس جب یہودی آئے تو آپﷺ نے ان سے پوچھا” عبداللہ بن سلام تم میں کیسے شخص ہیں؟ “انہوں نے کہا ”بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں۔
بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں “آپﷺ نے فرمایا” اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا؟“ کہنے لگے ”اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے؟ “
حضرت عبداللہ بن سلام ؓجو اب تک چھپے ہوئے تھے ،باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا تو تمام کے تمام یہودی شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے ۔یہ بڑا نیچلے درجہ کا آدمی ہے۔ خاندانی کمینہ ہے۔ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا” حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا۔یہ لوگ جھٹلانے والے ہیں “