بھارت میں 400 سالہ تاریخی مسجد شہید کردی گئی
بھارت کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں انتظامیہ کی جانب سے روڈ کو وسعت دینے کی آڑ میں 400 سالہ تاریخی مسجد کو شہید کیے جانے کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا۔
نشریاتی ادارے ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ نے بھارتی خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گریٹ حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے گزشتہ ہفتے روڈ کی توسیع کی خاطر 4 صدیوں سے قائم یکخانہ مسجد کو شہید کردیا۔یہ تاریخی مسجد حیدرآباد کے علاقے عنبرپیٹ کے مرکز میں واقع تھی اور اسے شہر کی قدیم ترین مسجد کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
مسجد کو انتظامیہ کی جانب سے شہید کیے جانے کے بعد ریاست تلنگانہ کے وقف بورڈ سمیت دیگر اداروں نے مسجد کی شہادت کو غلطی قرار دیا اور کہا کہ جس جگہ مسجد تعمیر تھی وہ جگہ 400 سال سے مسجد انتظامیہ کے لیے وقف تھی۔
یکخانہ مسجد کی شہادت مسلمانوں کے مقدس ماہ رمضان المبارک سے چند دن قبل عمل میں آئی ہے، علاقے کے رہائشی ہزاروں مسلمان نمازیوں کو عبادت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
تاریخی مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے مظاہرے شروع کیے تو وقف بورڈ نے مسجد کی تعمیر دوبارہ کروانے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد مسلمانوں نے 5 مئی کو مسجد کی جگہ پر رمضان المبارک کے پیش نظر عارضی چھت ڈالنے کی کوشش کی تو ہندو انتہاپسندوں نے مظاہرہ شروع کردیا۔
رپورٹ کے مطابق شہید کی گئی مسجد کی عارضی چھت ڈالے جانے کے وقت حکمران جماعت پارٹی ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے رکن اسمبلی راجا سنگھ بھی اپنے درجنوں کارکنان کے ساتھ پہنچے اور انہوں نے حالات کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی۔
راجا سنگھ کی قیادت میں مسجد کی دوبارہ تعمیر پر مظاہرے کرنے والے ہندو ارکان اور مسلمان ارکان کے درمیان پتھراؤ بھی ہوا، جس دوران پولیس اہلکاروں سمیت متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔حالات انتہائی کشیدہ ہونے کے بعد پولیس نے بی جے پی رکن اسمبلی راجا سنگھ کو گرفتار کرکے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی۔
حیدرآباد پولیس کے کمشنر انجنی کمار کے مطابق راجا سنگھ حالات کو کشیدہ کر رہے تھے، جس سے شہر کا امن و امان خطرے میں پڑ سکتا تھا، جس وجہ سے انہیں عارضی طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے چند گھنٹوں بعد راجا سنگھ کو رہا کیا تو انہوں نے ٹوئٹر پر ایک نفرت انگیز ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگرعنبرپیٹ میں دوبارہ کوئی تعمیر کی گئی تو وہ اس تعمیرات کو منہدم کردیں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ جس جگہ کو منہدم کرنے پر ہنگامہ کیا جا رہا ہے، وہ مسجد نہیں بلکہ ایک گھر تھا۔
انہوں نے پولیس اور دیگر لوگوں کا نام لیے بغیر دھمکی دی کہ حیدرآباد کو دوسرا ایودھیا نہ بنایا جائے۔
دوسری جانب تلنگانہ کے وزیر داخلہ نے بھی مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کروائیں گے کہ مسجد کو کیوں اور کس کے کہنے پر شہید کیا گیا۔
علاوہ ازیں بی جے پی کے دیگر رہنماؤں سمیت دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہاں مسجد موجود تھی اور اس کی شہادت کے بعد وہاں دوسری مسجد تعمیر کی جانی چاہیے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی 1992 میں حکومتی سرپرستی میں ہندو انتہاپسندوں نے ریاست اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کے نواحی شہر ایودھیا میں تاریخی ’بابری مسجد‘ کو شہید کردیا تھا۔
یہ مسجد کم از کم 500 سال قبل بنائی گئی تھی، تاہم ہندوؤں کا دعویٰ تھا کہ ایودھیا میں رام کا جنم ہوا تھا، اس لیے یہاں کبھی مسجد قائم ہی نہیں تھی۔