بھارت میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی 8 سالہ مسلمان بچی قتل، دفنانے کے لئے اس کی قبر کھودی جارہی تھی تو وہاں ہندو پہنچ گئے اور۔۔۔ پھر کیا ہوا؟ ایسی حرکت کہ بھارت پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا
مقبوضہ کشمیر میں ایک کمسن مسلمان لڑکی کی اجتماعی آبروریزی اور سفاکانہ قتل کے واقعے نے بھارت کا گھناؤنا چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ جب اس لرزہ خیز واقعہ پر دنیا بھر کے میڈیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا تو خود بھارتی بھی کہنے لگے کہ مظلوم لڑکی کو انصاف دیا جائے، مگر سچ تو یہ ہے کہ ایک بے سہارا مسلمان لڑکی کے لئے کون سا انصاف اور
کہاں کا انصاف؟ اصل حقیقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مقتولہ آصفہ بانو کے خاندان کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے، اور سفاکیت کی حد یہ ہے کہ ہندو شدت پسندوں نے ننھی لڑکی کی تدفین کے لئے قبر کی جگہ بھی نہیں دی۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق آٹھ سالہ آصفہ بانو کی مسخ شدہ لاش کو فنانے کے لئے قبر کھودی جا رہی تھی کہ گاؤں کے سب ہندو اکٹھے ہو کر آ گئے اور قبر کی کھدوائی رکوا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ زمین مسلمانوں کی نہیں، وہ بچی کو دفن کرنے کے لئے کہیں اور لے جائیں۔ اس وقت شام ڈھل چکی تھی لیکن مظلوم آصفہ کے بے کس ورثاء کے لئے گاؤں چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
وہ اپنے گاؤں سے نکلے اور رات کی تاریکی میں دشوار گزار پہاڑی راستوں پر چلتے ہوئے آٹھ کلومیٹر دور جا کر رکے جہاں بالآخر بچی کی تدفین کی گئی۔ اس ویران مقام پر آصفہ کی چھوٹی سی قبر اس پر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کرتی دکھائی دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رسانہ گاؤں کے ہندوؤں کا کہنا تھا کہ بکروال قبیلے کے مسلمان، جس سے مقتولہ آصفہ کا بھی تعلق تھا، غیر قانونی طور پر ان کی زمینوں پر مقیم ہیں، وہ زمین کا مالک نہیں لہٰذا انہیں کوئی حق نہیں کہ گاؤں کے قبرستان میں اپنی بچی کو دفن کریں۔
آصفہ کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ جب اس کی لاش ملی تو شام کے وقت وہ اس کی تدفین کے لئے قبر کھود رہے تھے کہ گاؤں کے شدت پسند ہندو جمع ہوکر آگئے اور انہیں قبر کھودنے سے منع کردیا۔ بے بس اہلخانہ شام ڈھلنے کے بعد اپنی بچی کی لاش لے کر چلے او ررات کے اندھیرے میں آٹھ کلومیٹر کی دوری پر لیجاکر اسے دفن کیا۔
بچی کے دادا نے اس ظلم پر آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’اس کمسن کی لاش کے لئے کتنی زمین چاہیے تھی؟ ہماری بانہوں میں اس بچی کی لاش تھی جس کی عصمت دری کرکے اسے قتل کردیا گیا۔ ایسے وقت پر گاؤں والوں کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔‘‘