حضرت عمرؓنے کیوں فرمایا کہ اپنی بیویوں سے تین دن بعد ہمبستری کیا کرو
سیدنا عمرؓ کے پاس کعب اسدی تشریف فرما تھے، ایک خاتون آئی اورآ کر کہنے لگی: امیر المومنین! میرا خاوند بہت نیک ہے، ساری رات تہجد پڑھتا رہتا ہے، اور سارا دن روزہ رکھتا ہے،- اور یہ کہہ کر خاموش ہو گئی، عمرؓ بڑے حیران کہ خاتون کیا کہنے آئی ہے؟ اس نے پھر یہی بات دہرائی کہ میرا خاوند بہت نیک ہے، ساری رات تہجد میں گزار دیتا ہے اور سارا دن روزہ رکھتا ہے،اس پر کعبؒ بولے: اے امیرالمومنین! اس نے اپنے خاوند کی بڑے اچھے انداز میں شکایت کی ہے، کیسے شکایت کی؟امیرالمومنین! جب وہ ساری رات تہجد پڑھتا رہے گا اور سارا دن روزہ رکھے گا تو
پھر بیوی کو وقت کب دے گا؟ تو کہنے آئی ہے کہ میرا خاوند نیک تو ہے-مگر مجھے وقت نہیں دیتا۔ چنانچہ عمرؓ نے اس کے خاوند کو بلایا تو اس نے کہا: ہاں میں مجاہدہ کرتا ہوں، یہ کرتا ہوں، وہ کرتا ہوں، حضرت عمرؓ نے
حضرت کعبؓ سے کہا کہ آپ فیصلہ کریں، حضرت کعبؓ نے ان صاحب سے کہا کہ دیکھو! شرعاً تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارو، ہنسی خوشی اس کے ساتھ رہو اور کم از کم ہر تین دن کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرو، خیر وہ میاں بیوی تو چلے گئے، تو عمرؓ نے ابی بن کعب سے پوچھا: آپ نے یہ شرط کیوں لگائی کہ ہر تین دن کے بعد بیوی سے ملاپ
کرو؟-انہوں نے کہا: دیکھیں! اللہ رب العزت نے مرد کو زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت دی، چنانچہ اگر چار شادیاں بھی کسی کی ہوں تو تین دن کے بعد پھر بیوی کا نمبر آتا ہے، تو میں نے اس سے کہا کہ تم زیادہ سے زیادہ تین دن عبادت کر سکتے ہو تین دن کے بعد ایک دن رات تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہیں گزارنا پڑے گا، تو دیکھو شریعت انسان کو کیا خوبصورت باتیں بتاتی ہے۔