’’ جب کچھ کرنے کی لگن ہو۔۔۔‘‘ ریگستان 27 لاکھ درخت لگنے کے بعد ہرے بھرے جنگل میں تبدیل۔۔۔ برازیلی جوڑے نے یہ سب کیسے کیا؟ جانیئے

سیباستاؤ ریبیرو سالگادو کا تعلق برازیل سےہے۔ وہ دنیا کے جانے مانے سوشل ڈاکیومنٹری فوٹو گرافر اور فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تاریخ میں ماحول کی بحالی کے ایک اہم پروجیکٹ کے پیچھے اُن کا دماغ ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر

اٹلانٹک جنگل کے ایک تقریباً مردہ حصےکو دوبارہ بحال کیا ہے۔ انہوں نے پچھلی دو دہائیوں میں یہاں کئی لاکھ درخت اگائے ہیں۔سیباستاؤ اور اُن کی بیوی لیلیا دیلوئز وانیک سالگادو نے 1998 میں ایک غیر تجارتی تنظیم انسٹی ٹیوٹو تیرا قائم کی تھی۔ سیباستاؤ اس سے پہلے فوٹو گرافر کے طور پر روانڈا آئے ہوئے تھے۔ جنگ کے دوران انہوں نےا تنے خوفناک سانحے دیکھے کہ اُن کا انسانیت سے اعتبار اٹھ گیا، اُن کی تصویریں بنانے کی خواہش بھی ختم ہوگئی۔انہی دنوں سیباستاؤ کے والدین نے انہیں اور اُن کی بیوی کو ایک فارم ہاؤس دینے کی پیش کش کی۔اس پر دونوں برازیل واپس آگئے۔اُن کا خیال تھا کہ یہاں واپس آ کر وہ روانڈا کی یادیں بھلا سکیں گے۔

تاہم جب وہ واپس آئے تو فارم ہاؤس ویسا نہیں تھا، جیسا انہیں یاد تھا۔ سیباستاؤ کی پرورش 1750 ایکٹر کے فارم میں ہوئی تھی۔ یہ فارم ہاؤس میناس گیرائس صوبے میں برازیل کے اوقیانوسی ساحل سے 70 میل دور تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اٹلانٹک جنگل نے اُن کے آدھے فارم اور آدھی ریو ڈوس وادی کو گھیرا ہوا تھا۔جب وہ 90 کی دہائی کے وسط میں واپس آئے تو سب ویسا نہیں تھا۔ سیباستاؤ نے بتایا کہ زمین اتنی ہی بیمار تھی، جتنے وہ تھے، ہر چیز تباہ ہو چکی تھی۔ زمین کا صرف 0.5 فیصد حصہ درختوں سے ڈھکا تھا۔ برازیل کے دوسرے کسانوں کی طرح سیباستاؤ کے والد نے بھی درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ درختوں کو بیچ کر افریقی گھاس اگاتے تاکہ اپنے جانوروں کا پیٹ بھر سکیں ۔

ریوڈوس کی وادی بھی صحرا بن چکی تھی، جس کی وجہ سے جانور مر رہے تھے۔ تب سیباستاؤاور اُن کی بیوی نے سوچا کہ سب کچھ ختم نہیں ہوا، وہ اس جنگل کو پہلے جیسی حالت میں لا سکتے ہیں۔سیباستاؤ کی بیوی نے انہیں کہا کہ وہ دوبارہ سے درختوں کو لگائیں گے۔ جب درخت لگ گئے تو وہاں پر حشرات، پرندے اور مچھلیاں سب واپس آگئے۔ درختوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا۔سیباستاؤ اور اُن کی بیوی نے ستمبر 1998 میں انسٹی ٹیوٹو تیرا کے نام سے ایک غیر تجارتی تنظیم بنائی۔ انہوں نے فارسٹری انجینئر کو اپنا فارم دکھایا ۔ انجینئر ریناتو نے بتایا کہ زمین کی مٹی کی زرخیزی ختم ہو چکی ہے لیکن یہ بحال ہو سکتی ہے۔ سیباستاؤ نے

دو درجن مزدوروں کی خدمات حاصل کیں ، جنہوں نے ہاتھوں سے افریقی گھاس کو اکھاڑ کر ختم کیا۔سیباستاؤ نے ایک نرسری سے ایک لاکھ چھوٹے پودے عطیہ کے طور پر لیے ۔ انہوں نے فوٹوگرافر کے طور پر اپنی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے حکومتوں اور دنیا کے مختلف اداروں سے بھی عطیات لیے۔انہوں نے بنجر زمین پر ایسے پودے اگائے جو جلدی بڑے ہوتے اور جلدی مرتے تھے۔ اس کا مقصد زمین کی نائٹروجن بحال کرنے کے ساتھ پرندوں اور حشرات کو سایہ فراہم کرنا تھا۔ اس کے پانچ سے دس سال کے اندر زمین مقامی پودوں کو اگانے کے قابل ہو جاتی۔ سیباستاؤ کی محنت رنگ لائی۔ 2002 میں انہوں نے اپنی نرسری قائم کی اور علاقے کا نقشہ ہی بدل دیا۔جو زمین کبھی بنجر ہوچکی تھی، وہاں پر درخت ہی درخت نظر آتے ہیں۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.