برطانیہ میں داخلے پر مکمل پابندی ۔۔۔سعودی صحافی کے قتل کے بعد برطانیہ نےفرمانروا شاہ سلمان کو بڑا جھٹکا دے دیا

چند روز قبل ترکی میں قائم سعودی سفارتخانے میں امریکی نژاد صحافی جمال خشوقجی کو قتل کر دیا گیا جس کے بعد سعودی عرب، امریکہ اور ترکی آمنے سامنے آگئے۔ لیکن اب جمال خشوقجی کے قتل پر برطانیہ بھی میدان میں آگیا ہے ، برطانوی وزیر اعظم

تھریسامے نے سعودی حکومت کو واضح پیغام پہنچا دیا ۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوقجی قتل سےمتعلق سارے حقائق سامنےآنےضروری ہیں،میں آج سعودی فرمانروا شاہ سلمان نےفون پربات کرونگی۔ برطانوی وزیر اعظم ٹیریزامے کا کہنا تھا کہ قتل میں ملوث تمام افراد پربرطانیہ میں داخلےپرپابندی لگائیں گے، ان مشتبہ افرادکےپاس اگربرطانوی ویزیں ہیں تووہ آج منسوخ کردیےجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ پابندی کےاقدامات کررہےہیں۔واضح رہے کہ معروف امریکی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی ایک بڑی اور

سنگین غلطی تھی، تاہم اس موقع پر انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اس کارروائی اور قتل کے پیچھے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تھے۔شخص سعودی قونصل خانے کے پچھلے دروازے سے نکلتے دیکھا جاسکتا ہے، اس شخص نے نقلی داڑھی اور چمشہ بھی لگا رکھا ہے۔ سعودی صحافی کے قتل پر کل ترک صدر طیب اردوان نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب سے پندرہ افراد کی ٹیم ترکی پہنچی تھی اور الگ الگ گروپ کی شکل میں قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے۔ یہ دو سعودی ٹیمیں صحافی کے قتل

میں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ بعد ازاں، قونصل خانے کے کیمرا سسٹم سے ہارڈ ڈسک نکالی گئی۔ ترک صدر نے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت نے پہلے جمال خاشقجی کے قتل سے انکار کیا تھا، مگر ترکی کی انٹیلیجنس ٹیم نے تفتیش جاری رکھی۔قتل کے معاملے پر سفارتی کارروائی کررہی ہیں، جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جمال خاشقجی کے قتل کا نوٹس لیا گیا۔طیب اردوان نے کہا قتل کی تحقیقات کیلئےجوائنٹ انویسٹی گیشن پر اتفاق ہوا، قتل ہماری سرزمین پر ہوا، اس لیے ہم تحقیقات مکمل کریں گے اور ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے گی۔انہوں نے سعودی موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی جھگڑا نہیں تھا، صحافی کو منصوبہ

بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ سفارتی استثنیٰ کو قتل کے لیے ہتھیار نہیں بنایا جاسکتا، اس لیے انہوں نے سعودی فرمانروا پر زور دیا کہ تمام 18 ملزمان کی ترکی کی عدالتوں میں مقدمے کے لیے پیش کریں۔ترک صدر نے کہا کہ قتل میں جو بھی ملوث ہے خواہ اس کا عہدہ کچھ بھی ہو سعودی حکومت اس کے چہرے سے پردہ ہٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس وقت تک مطمئن نہیں ہوگی جب تک قتل میں شامل ہر شخص خواہ وہ اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو کو ترکی کی عدالتوں میں پیش نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ میں سعودی فرمانروا پر کسی شک و شبے کا اظہار نہیں کر رہا ہوں لیکن اس قتل کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے کیوں کہ یہ ایک سیاسی قتل ہے۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم اس قتل پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ہر وہ کام کریں گے جس کی ہمیں قانون اور ہمارا ضمیر اجازت دیتا ہے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.