ہم تنخواہیں نہیں دے پارہے، کے پی کے حکومت نے ہمارے اشتہارات بند کیے ہوئے ہیں اور ۔۔ چیف جسٹس اور میر شکیل الرحمان کے درمیان دلچسپ مکالمہ

جیو نیوز کے تنخواہوں کے مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی ہے ۔ جنگ گروپ کے مالک میرشکیل عدالت میں حاضر ہوئے اور اپنا موقف پیش کیا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ماشا اللہ آپ کا بہت بڑا میڈیا ہاوس ہے، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں بھی سب سے بڑا ادارہ ہے، آپ کے ادارے کے لوگوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، تنخواہیں ادا نہ کرنے کی وجہ کیا یے ۔

میر شکیل الرحمن نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں سے بہت شرمندہ ہوں اور معافی مانگتا ہوں میرافرض بنتا ہے کہ وقت پر ملازمین کا حق ادا کروں، عدالت کے بلانے پر پہلے پیش نہ ہونے پر معذرت چاہتا ہوں، ہر لحاظ سے میرا فرض ہے کہ بروقت معاوضہ دوں ۔

میر شکیل الرحمان نے کہا کہ تنخواہ ادا نہ کرنے کی وجہ عدالت کی اجازت سے تفصیلی طور پر بتا سکتا ہوں، میرشکیل نے ایک موقع پر کہا کہ جب کوئی گن پوائنٹ پر کاروبار لوٹ ریا ہو تو، چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں کون کون سی جگہ جیو کو بند کیا گیا ہے؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر آپ کا پیسہ رکا ہوا ہو تو اس کو دیکھ لیتے ہیں، اس معاملے کو مجموعی طور پر انسانیت کے حوالے سے لے لیتے ہیں، آپ کا ادارہ سب سے بڑا ہے، آپ ملک کے سب سے بڑا میڈیا ادارہ ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اس لیے آپ کو بلایا ہے تاکہ دیگر کیلئے مشعل راہ بنیں ۔

چیف جسٹس نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ پروجیکٹر کا پردہ لپیٹ دیں، ہم میر شکیل صاحب کو کچھ دکھانا چاہ رہے تھے مگر اب نہیں چلائیں گے، جب محبت دیتے ہیں تو محبت ملتی ہے، عدلیہ کسی کے خلاف نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اسی لیے بیٹھی ہے کہ مسائل حل کرے ۔

میر شکیل الرحمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے پیشہ دینا ہے، جب سے نئے وزیراعظم آئے ہیں اشتہارات بند ہو گئے ہیں، کے پی حکومت نے بھی ہمارے اشتہارات بند کیے ہوئے ہیں ۔ میر شکیل کا کہنا تھا کہ مالی بہاو (ریونیو اسٹریم) کا مسئلہ ہے، جیو بند ہوتا رہا ہے، اب تو کافی حد تک کھل چکا ہے، حامد میر واقعہ کے بعد بہت زیادہ نقصانات ہوئے، حامد میر کا واقعہ افسوسناک تھا اور اس کے بعد جیو بند رہا ۔

جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ جنگ اور جیو کا ماہانہ سیلری بل کتنا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ تنخواہ کا مسئلہ صرف جیو میں ہے، جنگ اور دی نیوز کی تنخواہیں بروقت ادا کی جا رہی ہیں ۔ میر شکیل نے ساتھ موجود شخص سے بات کرنے کے بعد بتایا کہ میرے علم میں نہیں لیکن اندازہ ہے جیو کی ماہانہ تنخواہ کا بل 25 کروڑ ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ جیو نیوز کی ماہانہ آمدن کتنی ہے؟ میر شکیل الرحمان ساتھ موجود معاون اسٹاف سے پوچھتے رہے تاہم کوئی جواب نہ دیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ پوچھا کہ ریکارڈ کے مطابق ریونیو کتنا ہے؟ اسی دوران چیف جسٹس نے جسٹس عمر عطا سے مشاورت کے بعد کہا کہ میر شکیل صاحب کاروباری خسارہ ہو جاتا ہے اس کامطلب یہ نہیں تنخواہیں بند کر دیں، ملازمین اپنے گھر کے اخراجات کیسے چلائیں گے، ایک میڈیا ادارے نے اپنی جائیداد فروخت کرکے تنخواہیں ادا کیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی اپنے بچوں کے لئے سہولتت پیدا کریں، آپ ان کے کفیل ہیں ۔ میر شکیل نے کہا کہ 78 فیصد ادائیگیاں کر چکے ہیں، عدالت ہمیں 3 ماہ کا وقت دے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین ماہ میں ملازمین کیسے گزارہ کریں گے، تین ماہ کا وقت دینا ممکن نہیں ہے، ان لوگوں کے ساتھ پیٹ لگا ہے، اسکول اور ڈاکٹرز کی فیس بھی ادا کرنی ہو گی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے موقعوں پر رشتے دار بھی ساتھ نہیں دیتے، آپ ان کے مالک نہیں بلکہ اللہ نے کفیل بنایا ہے ۔ میر شکیل نے کہا کہ آپ کے ایک ایک لفظ سے اتفاق ہے، آمدن نہیں ہوگی تو تنخواہیں کیسے ادا کروں گا، جب بن پوائنٹ پر کاروبار کو لوٹ رہا ہو تو ۔۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میر شکیل آپ کا ادارہ کہاں کہاں بند ہوا ہے، ہمیں بتائیں ۔ پہلے بھی حامد میر سے کہا تھا کہ اس کیلئے الگ سے درخواست دیں، سپریم کورٹ کس لیے ہے، کوئی بند نہیں کر سکتا ۔ آپ کے پاس لائسنس ہے، اگر کوئی خلاف ورزی نہیں کی تو طاقت کے ذریعے کوئی بند نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل کو بلا کر پوچھیں گے، تاہم اگر آپ کے چینل کی نمبرنگ تبدیل ہوتی ہے تو اور بات ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پہلے نمبر پر دکھانا آپ کا حق ہے تو اس پر درخواست دے کر مطمئن کریں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی یہ بات کر چکا ہوں، دہرا رہا ہوں، جو بھی کریں تنخواہ ادا کریں، تیسرے لفظ استعمال نہیں کرتا۔ اور آپ کو نہیں کہہ رہا مگر بھیک مانگیں، قرض لیں یا ڈاکہ ڈالیں ملازمین کو تنخواہ ملنی چاہیے ۔ یہ تیسرا لفظ ویسے ہی محاورے میں کہا گیا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت نے اگر واجبات ادا نہیں کئے تو حکومت سے پوچھ سکتے ہیں لیکن اگر اشتہارات کی پالیسی بدل گئی ہے تو کچھ نہیں کر سکتے ۔ اگر ایسا ہے تو اپنے بزنس پلان میں تبدیلی کر لیں، ہم صرف پہلے کے واجبات کی ادائیگی کیلئے ہی حکومت کو کہہ سکتے ہیں ۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جیو نیوز صرف حکومتی اشتہارات پر نہیں چلتا، یہ ایک کمرشل ادارہ ہے، پرائیویٹ سکیٹرز سے بھی اشتہارات ہوتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اشتہارات پر صرف تصویر کی حد تک پابندی لگائی گئی، کسی حکومت کو اشتہار دینے سے منع نہیں کیا، انڈسٹری کے بڑوں نے یہاں آ کر اتفاق کیا تھا کہ سرکاری اشتہارات میں شخصیات کی تصاویر نہ ہوں ۔ اگر خیبر پختونخوا حکومت اشتہار نہیں دیتی تو کچھ نہیں کہہ سکتے، وہ گاہک ہے اگر آپ سے کچھ لینا نہیں چاہتی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس ادارے کا ایک نام و احترام ہے، اس سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ ہم تو چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے، صحافی کہتے ہیں انھیں صرف صحافت آتی ہے، صحافی توکوئی دکان بھی نہیں لگا سکتے، ہمیں وقت کا بتا دیں کہ کب تنخواہیں دیں گے ۔ میر شکیل نے کہا کہ گزارش ہے کہ اس کیلئے کمیٹی بنا دی جائے تاکہ ملازمین کو بھی ادارے کے مالی حالات کے حوالے سے حقائق معلوم ہو سکیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس پر بھی سوچ سکتے ہیں مگر کمیٹی معاملے کو طول دیتی ہے یہ تاثر ہوتا ہے اس لیے نہیں چاہتے، ملازمین کو تنخواہوں کے لیے کمیٹی کے پیچھے نہیں لگا سکتے، بطور باپ اپنا فرض ادا کریں، آپ ان سب کے باپ ہیں ۔ میر شکیل نے کہا کہ تین چار دن دیدیں ۔ چیف جسٹس نے حامد میر سے پوچھا کہ آپ کی سربراہی میں کمیٹی بنا دیں؟ حامد میر نے جواب دیا کہ میں ان کی انتظامیہ کا حصہ ہوں اور نہ ہی ان کا باقاعدہ ملا

زم ہوں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار کہتے ہیں کہ سب سے ٖبڑا ادارہ ہے، سب سے بڑے ادارے میں بہتری آئے گی تو نیچے بھی بہتری آئے گی ۔ میر شکیل نے کہا کہ سب سے بڑا ادارہ ہی بند ہوتا رہا ہے، بار بار ہوتا رہا ہے، میری ریکوسٹ ہے التجا ہے کہ اس پر بھی سو موٹو لیں، تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرضے لیے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس لینے بند کر دیے ہیں، آپ لوگوں نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے، تنقید کی ہے ۔ بار کونسل نے بھی تنقید کی ہے، ان کو بھی کہہ دیا ہے کہ اب درخواستیں دیں، سماجی کارکن سامنے آئیں درخواست لائیں تب کیس ہوگا ۔

چیف جسٹس نے آرڈر لکھوانا شروع کیا تو میر شکیل الرحمان نے کہا کہ ایک اور گزارش ہے کہ آپ نے فرمایا کہ چینل جس نمبر پر آتا ہے حق نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ریموٹ لے کر جیو نہیں ڈھونڈتا، آپ کا بھی اتنا حق بنتا ہے جتنا دوسرے کسی بھی شہری کا ۔ اگر آپ کا حق بنتا ہے تو کوئی نہیں چھین سکتا ۔

میر شکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی چینل کے نمبر پر مفصل فیصلہ دے چکا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔ میر شکیل نے کہا کہ آپ کے چینل نمبر والے ریمارکس دوسرے چینل والے اس طرح چلائیں گے ہمارے لیے مسائل ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ایسے ریمارکس نہیں دیے سوال پوچھا ہے کہ کیا یہ آپ کا حق ہے، چینل نمبر آگے پیچھے کرنے پر پوچھا ہے ۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بارے میں کہا کہ اس میں اس طرح کا حق کا تعین کیا جا چکا ہے اور وہ بڑا سراہا گیا فیصلہ ہے، وکیل بابر ستار اس کا حوالہ بتائیں ۔ بابر ستار نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس طرح امتحان لیں گے مجھے یاد نہیں ۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ SC ۔ 69 ہے ۔

عدالت نے جیو کے تنخواہوں کی ادائیگی کے مسئلے کے حل کیلئے حامد میر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی اور ہدایت کی تین دن میں بتائے ۔ کمیٹی میں جیو نیوز کے دو رپورٹر اور انتظامیہ کے دو نمائندے شامل ہوں گے ۔

عدالت میں جنگ کے ایک سابق ملازم عظیم چودھری پیش ہوئے اور کہا کہ جنگ نے میری پندرہ ماہ کی تنخواہ نہیں دی، یہ فون بھی نہیں اٹھاتے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست حامد میر کے حوالے کرتے ہیں یہ ذاتی طور پر آپ کا معاملہ حل کرا دیں گے ۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.