چیف جسٹس کس کے کہنے پر جمہوریت کے حق میں بیانات دیتے رہے؟ حامد میر نے بڑا دعویٰ کردیا
سینئر صحافی وکالم نویس حامد میر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو سینئر قانون دان ایس ایم ظفر نے عاصمہ جہانگیر کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا جس میں انہوں نے جمہوریت کو درپیش خطرات کا ذکر کیا تھا، یہ پیغام ملنے کے بعد چیف جسٹس نے لاہور کے ایوان اقبال میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران جمہوریت کے حق میں بیان دیا تھا۔
حامد میر نے اپنے کالم میں چیف جسٹس کے جمہوریت کے حق میں دیے جانے والے بیانات پر تفصیلی گفتگو کی اور لکھا ”عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بتا رہے تھے کہ انہوں نے پہلا از خود نوٹس31 دسمبر 2016ءکو عاصمہ جہانگیر کے کہنے پر لیا تھا اور ایک بچی طیبہ پر تشدد کرنے والے با اثر افراد پر ہاتھ ڈالا تھا۔ چیف جسٹس صاحب کہہ رہے تھے کہ میں نے عاصمہ جہانگیر جیسی بہادر خاتون آج تک نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ عاصمہ جہانگیر نے مجھے ایس ایم ظفر کا پیغام دیا کہ جمہوریت کو شدید خطرات درپیش ہیں جس کے بعد چیف جسٹس صاحب نے کھل کر یہ کہا کہ جمہوریت کے خلاف کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجھے یاد ہے چیف جسٹس صاحب نے یہ بات ایوان اقبال لاہور میں ایک تقریب میں کہی تھی جس کا اہتمام عارف نظامی صاحب نے کیا تھا اور ناچیز بھی اسٹیج پر موجود تھا۔ اس وقت ہمیں یہ پتا نہیں تھا کہ چیف جسٹس صاحب جمہوریت کا دفاع کیوں کر رہے ہیں لیکن 13اکتوبر کی دوپہر پتا چلا کہ انہیں عاصمہ جہانگیر نے ایس ایم ظفر کا پیغام دیا تھا“۔
حامد میر نے بتایا کہ چیف جسٹس کے بیان کے بعد انہوں نے خود بھی ایس ایم ظفر سے رابطہ کرکے اس بات کی تصدیق کی ۔ حامد میر کے مطابق ” ایس ایم ظفر صاحب کا ذکر چیف جسٹس کی زبان سے سنا تو تجسس ہوا کہ مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ ایس ایم ظفر سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ واقعی انہوں نے عاصمہ جہانگیر سے جمہوریت کو درپیش خطرات پر بات کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے چیف جسٹس کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ بات ختم ہو گئی تو کچھ دیر بعد ان کا دوبارہ فون آیا اور انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو اب فوج سے نہیں بری گورننس سے خطرہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں چیف جسٹس نے ایک دفعہ پھر واضح الفاظ میں کہا کہ اب صرف جمہوریت چلے گی اور آئین کے خلاف کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس پر بھرپور تالیاں بجائی گئیں لیکن میرے اردگرد موجود کچھ سیاسی رہنما اور دانشوروں نے تالیاں نہیں بجائیں۔ ایک صاحب نے مجھے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے ہم ان کے خلاف پریس کانفرنس کریں گے۔ “