ٹیکس لگا کر پاگل کر دیا ہے، یہ کس چیز کا ٹیکس ہے؟ مجھے یہ عمل مشکوک لگتا ہے.. چیف جسٹس نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بارے بڑا قدم اٹھا لیا
سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اوراضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے،عدالت نے سیکرٹری پٹرولیم، سیکرٹری وزارت توانائی اور دیگر کو پٹرولیم منصوعات کی درآمدات،6 ماہ کی بولی، قیمتوں کے تعین کے ریکارڈسمیت طلب کر لیا ۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بنچ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اوراضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی،عدالت نے پٹرولیم قیمتوں کے تعین پر ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس لگا کر پاگل کردیا کس بات کا ٹیکس ہے سارا حساب دینا ہوگا،عدالت نے سیکرٹری پٹرولیم، سیکرٹری وزارت توانائی ،چیئرمین ایف بی آر ،ایم ڈی پی ایس او اور دیگر حکام کو جمعے کو پیش ہونے کا حکم دے دیا ۔
عدالت نے پٹرولیم منصوعات کی درآمدات،6 ماہ کی بولی اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے،کس قانون اور طریقہ کے ذریعے 62.8 روپے فی لٹر کا تعین کیا گیا ہے؟۔
ایم ڈی پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ مختلف اداروں نے ہمارے 300 ارب دینے ہیں،اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ اداروں سے 300 ارب کیوں واپس نہیں لے رہے ؟،مطلب آپ بینکوں سے قرضہ لے کر معاملات چلا رہے ہیں،ایم ڈی پی ایس او یعقوب ستار نے کہا کہ بینکوں سے 95 ارب روپے قرضہ لے رکھا ہے ،ہر سال 7 ارب سود کی مد میں جاتے ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی بڑی رقم سود میں جا رہی ہے ۔