یہ کھا پی کر کہاں چلے گئے ۔۔۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ناقابل یقین حکم جاری کر دیا
سپریم کورٹ نے گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کو طلب کرلیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس سے متعلق درخواست پر سماعت جاری ہے۔ قومی احتساب بیورو کے اسپیشل پراسیکیوٹر
اکبر تارڑ اور پاکستان اسٹیٹ آئل ( پی ایس او) کے وکیل محمود مرزا عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔پی ایس او کے وکیل نے عدالت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی اور کہا کہ انتظامی اور خریداری امور کی وجہ سے قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی غیرمنصفانہ قیمتیں بڑھائی گئیں، ہم یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیں گے۔چیف جسٹس نے وزیر پٹرولیم
غلام سرور خان سے متعلق کہا کہ اگر وہ ادھر ہیں تو انہیں بلائیں اور کدھر گئے وہ 37 لاکھ والے سی ای او جس پر وکیل پی ایس او نے کہا کہ وہ ریٹائرڈ ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کھا پی کے چلے گئے۔اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ سابقہ دور میں ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی ایک فرد کو نوازنے کے لیے کی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا بلائیں شاہد خاقان عباسی کو اور پوچھیں ان سے کہ ایسا کیوں کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب اس طرح کے مقدمات پکڑے چھوڑ دیں تحصیلداروں کو، اس قوم کو
بتائیں ان کے ساتھ کیا ہوا۔چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا احد چیمہ کا کیا ہوا جس پر اکبر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے کیس بنائے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پی ایس او کی جانب سے پرائیویٹ وکیل ہائر کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے وکیل محمود مرزا سے استفسار کیا کتنی فیس لی ہے آپ نے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 15 لاکھ روپے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اداروں کی حالت پہلے ہی پتلی ہے پھر پرائیویٹ وکیل کی خدمات لے لیتے ہیں، پی ایس او کی نمائندگی اٹارنی جنرل آفس کو کرنی چاہیے تھی۔