کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ سلمان بادینی کی اطلاع ملنے پر کرنل سہیل عابدشہید کیسے اس کے ٹھکانے پر ٹوٹ پڑے، آمنا سامنا ہونے پر وہاں کیا ہوا؟ شہادت پانے والے پاکستانی کرنل کی داستان
وطن عزیز کے خلاف استعماری اور باطل قوتوں نے دہشتگردی کی عفریت کو بے لگام چھوڑا تو وطن کے بیٹے جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن عزیز کے دفاع میں ڈٹ گئے۔ کونسے بچے، کونسے گھر، کونسی تجارت، کونسی بیویاں، کونسی مائیں اور کونسے باپ، مادر وطن کے سجیلے جوانوں نے سورۃ توبہ کی آیت نمبر 28پر صادر ہوئے حکم ربی پر لبیک کہتے ہوئے سرفروشی کی وہ داستانیں رقم کیں کہ دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی، خلا کی وسعتوں میں سٹیشن بنا کر بیٹھی سپرپاورزدنیا میں چند مٹھی بھر شرپسندوں کو قابو نہ کر سکی اور پاک فوج کے شیر دلوں نے اپنے عمل سے ثابت
کر دیا کہ ہم علیؓ کی شجاعت کے امین ہیں اور پھر دہشتگردوں پر بھوکے شیروں کی ٹوٹ پڑے۔ دہشتگردوں کے خلاف یہ جنگ پاک فوج کے بہادر سپوتوں نے نہ صرف جنگلوں، پہاڑوں، ویرانوں ، بیابانوں میںلڑی بلکہ شہر کی گلیوں میں بھی پھیلائے گئے اس جال کو جلا کر خاکستر کر ڈالا۔ اس دوران دھرتی کے بہادر سپوتوں نے دہشتگردوں کے دھرتی ماں پر پڑنے والے ناپاک قدموں کو اپنے گرم ، ابلتے اور مقدس خوشبودار خون سے دھویا۔ کرنل سہیل عابد انہی سرفروشوں میں گزشتہ روز شامل ہو گئے۔ آپ پاک فوج کے نہایت قابل ، بہادر اور ذہین افسران میں شمار ہوتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ آپ کی خدمات ملٹری انٹیلی جنس کے حوالے کر دی گئیں۔ بلوچستان میں دہشتگردوں نے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کی تو پاک فوج نے ان کو ان کے بلوں میں
گھس کر نیست و نابود کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ کبھی علیحدگی ، کبھی فرقہ واریت کی آڑ میں ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والی ان کٹھ پتلیوں کے خلاف فیصلہ کن معرکوں کا آغاز کر دیا گیا۔ کرنل سہیل عابد کی نظریں ایسے مشن پر لگ چکی تھیں جس کا حکم خصوصی طور پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان دورے کے موقع پر دیا تھا۔ حال ہی میں ہزار ہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کی گئی تھی، لواحقین سراپا احتجاج ہوئے اور آرمی چیف سے ملاقات کے بغیر احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آرمی چیف
بھی اس صورتحال پر دکھی تھی۔ آپ فوری طور پر بلوچستان پہنچے اور لواحقین کو تسلی کے ساتھ یقین دہانی کروائی کہ پاک فوج اس ظلم کا حساب ضرور لے گی اور پاک دھرتی کو ان ناپاک وجودوں سے پاک کر کے رہے گی۔ آرمی چیف کی زیر صدارت سدرن کمانڈ ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف نے بلوچستان کے مظلوموں کے زخموں پر پھاہا رکھنے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا۔ کرنل سہیل عابد نیا مشن ملنے پر پرجوش تھے۔ آپ کی آنکھوں میں ایسی چمک اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی کیونکہ اب ان ناپاک
وجودوں کو دھرتی ماں سے پاک کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ عیار دشمن کو گھیرنے کیلئے جال بچھا دیا گیا، سورس نے اطلاع دی کہ کوئٹہ کے علاقے کلی میں جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ موجود ہے اور عنقریب بڑی تباہی کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ کرنل سہیل عابد کے جسم میں بجلیاں تڑپ اٹھیں۔ آپ نے آپریشن کی کمان خود کرنے کا فیصلہ کیا
اور کالعدم لشکر جھنگوی بلوچستان کے سربراہ سلمان بادینی کو جہنم واصل کرنے کیلئے تیاری شروع کر دی۔ سلمان بادینی کوئٹہ کی ہزارہ برادری سمیت 100سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں کا قاتل
تھااس کے سر کی قیمت 20لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ کرنل سہیل عابد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سانپ کے بل میں گھس گئے۔ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا، سلمان بادینی اپنے دو خودکش حملہ آوروں کے ساتھ کوئٹہ کے علاقے کلی میں واقعہ ایک ٹھکانے پر موجود تھا۔ شدید فائرنگ اور گرنیڈ حملوں کا تبادلہ شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں معصوموں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو عبرتناک انجام تک پہنچادیا گیا مگر آپریشن کے اختتام پر پاکستانی قوم اپنے ایک ایسے سپوت سے بھی محرو م ہو چکی تھی کہ جس نے اپنے آج کو ان کے کل پرقربان کر دیا تھا۔ کرنل سہیل عابد
شہید ہو چکے تھے ، انہوں نے وردی پہنتے وقت جو وعدہ وطن کی مٹی کو مٹھی میں لیکر کیا تھا، جو قسم کھائی تھی اسے پورا کر دیا تھا۔ ان کا گرم ، مقدس اور خوشبو دار خون دھرتی ماں پر نئی بہار کی نوید دے رہا تھا۔ سدرن کمانڈ کے ہیڈکوارٹر، جی ایچ کیو ، وزیراعظم ہائوس سمیت ہر جگہ خبر پہنچ چکی تھی۔ وزیراعظم ، آرمی چیف ، سپیکر قومی اسمبلی سمیت ہر عہدیدار کرنل سہیل عابد کی شہادت پر جہاں غمگین تھا وہیں یہ احساس اور رب کریم کا وعدہ یاد آرہا تھا کہ ’’ان کو مردہ نہ کہو وہ تو شہید ہیں اور تم کیا جانو کہ شہادت کیا ہے؟رب ان کو اپنے پاس سے رزق
عطا کرتا ہے‘‘۔کرنل سہیل عابد نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا مگر آج یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہم ان شہادتوں کی عظیم امانت سنبھالنے کے قابل ہیں اور کیا خود کو ان شہیدوں کا وارث قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ان شہدا نے وطن عزیز کیلئے عظیم قربانی دی اور ہم کیا ان کی طرح دل میں وطن عزیز کی ترقی، حفاظت اور خوشحالی کا جذبہ رکھتے ہیں، اگر تو جواب ہاں میں ہے تو یقیناََ ہم ان شہدا کے وارث ہیں۔