کرنل جوزف کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی

“آپ کی عدلیہ آزاد ہے۔ ادارے کی خوب صورتی یہ ہے کہ دباؤ کے بغیر کام کیا جائے۔ قائد و اقبال کے اس ملک میں صرف جمہوریت رہے گی۔ جب تک آپ ساتھ دیں گے، آپ کے حقوق کے لیے لڑتے رہیں گے۔”

چیف جسٹس صاحب کی لائیو ویڈیو میں یہ الفاظ سن کر ایک گونہ فخر کا احساس ہوا۔ پاکستان کے بظاہر آزاد وجود سے امریکی مغلوبیت کی رسیاں ڈھیلی پڑتی محسوس ہوئیں۔ سُپر پاور امریکہ کی تمام تر اقتصادی و اخلاقی پابندیوں کے باوجود، امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کے کیس میں پاکستان کی پیش قدمی بھی ریاستی احوال میں خوشگوار تبدیلی ہے۔

واقعہ کے مطابق، پاکستان میں امریکی سفارت کار کرنل جوزف کولونل نے ٹریفک سگنل کو توڑتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والے دو موٹرسائیکل سواروں کو ٹکر مار دی۔ ایک نوجوان عتیق جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ جائےوقوعہ سے قاتل کو گرفتار کیے جانے کے باوجود دفترِخارجہ کے حکم پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ “غیر ملکی سفارت کار کو ملکی قوانین سے استثنیٰ حاصل ہے۔”

سفارت کار کے لیے یہ استثنیٰ،ٰ”قاتل” کے لیے کیسے قانونی ہو گیا؟ کیا یہ استثنیٰ اپنے شہریوں کو مارنے کا کھلا لائسنس نہیں؟

اس موقع پر سیکریٹری خارجہ کا اقدام قابلِ ذکر ہے کہ امریکی سفیر کو طلب کرکے حادثے سے متعلق احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ ساتھ ہی یقین دلایا گیا کہ “پاکستان ملکی قوانین اور ویانا کنونشن کے مطابق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔”

حادثے کے بعد قاتل سفارت کار کرنل جوزف نے غیرملکی ایئرلائن کے ذریعے بیرونِ ملک فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس موقع پر وفاقی پولیس کا بروقت دفاعی اقدام لائقِ تحسین ہے کہ نہ صرف

ان کے ایئرٹکٹ کا سراغ لگا کر فرار کی کوشش ناکام بنا دی، بلکہ آئندہ کے خدشے کے پیشِ نظر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لِسٹ (ECL) میں ڈالنے کے لیے وزارتِ داخلہ کو خط بھی دے دیا گیا۔

احتیاطی تدابیر کے تحت کرنل جوزف کا پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا، نیز تمام ایئرپورٹس، اور سمندری و زمینی راستوں پر تعینات ایمیگریشن حکام کو ان کا نام دے دیا گیا۔

دوسری جانب امریکی حکومت نے بھی معاملے کی جلد خلاصی کی خاطر امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں کی آزادانہ نقل وحرکت کو (سفارت خانے کے اطراف 40 کلو میٹر) محدود کرنے کی پابندی عائد کر دی ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس پابندی کو پاکستان میں امریکی سفارت کار پر عائد پابندی کا جواب بتایا گیا۔ امریکی نائب وزیرِخارجہ برائے سیاسی امور تھامس شینن کے مطابق، “سفارتکاری میں اس طرح کے اقدامات معمول کی بات ہیں۔”

واضح رہے کہ مسٹر تھامسن کا یہ بیان ایک سُپرپاور کے ترجمان کا بیان ہے! اپنے ملک میں جانوروں اور بےجان چیزوں کے قوانین کی پاسداری کرنے والوں کا دوسروں کے لیے یہ قانون کیا تعصب نہیں؟ ایک قاتل کے سلسلے میں کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کے جواب میں بےقصور افراد کے لیے پابندیاں دراصل امریکہ کا خوف ہے۔ خوف بھی کیسا؟ اپنے سے کئی گنا کمزور اور مغلوب ملک کے عوام سے !

دیکھا جائے تو امریکہ بہادر کا یہ خوف بجا بھی ہے۔ سلام ہے ہمارے قومی اداروں کے ان فرض شناس ذمہ داروں کو جو کرپشن کے اس گئے گذرے دور میں بھی عدل کی بالادستی پر کمربستہ ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں قاتل سفارت کار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست زیرِسماعت ہے۔ مقتول عتیق کے والد کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست میں عدالت سے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور ایس ایچ او کوہسار کو شفاف تحقیقات کا حکم دینے کی التجا کی گئی ہے۔

یہ تمام منظرنامہ چیف جسٹس کی حالیہ تقریر کے مندرجات پر منطبق ہوتا ہے کہ عوام کے حقوق کے لیے جنگ لڑیں گے جب تک عوام ساتھ دے گی۔

ہمارے ملک کی افسوس ناک تاریخ ہے، اس سے قبل بھی 2011 میں امریکی سفارت کار ریمنڈ ڈیوس ایک حادثے میں چار انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ کی قید میں پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی ڈیلنگ محبِ وطن عوام کے پیشِ نظر تھی۔ لیکن حکومت کی امریکی غلامی کے باعث اس قاتل کو دیت کے قانوں کی آڑ میں باعزت امریکہ روانہ کر دیا گیا تھا۔

اب قاتل کرنل جوزف کی صورت میں ایک اور موقع ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات “ڈو مور” کے تعلق سے صدر ٹرمپ کی متعصب حکومت میں پہلے سے بہتر نہیں۔ مگر اس ضمن میں قومی اداروں کی پیش رفت اور چیف جسٹس کی تقریر سے امید بندھتی ہے کہ ملکی وقار کے اس معاملے کو جمہوری انداز سے حل کرنے کی کوشش ہو گی۔

انصاف کے عَلَم برداروں کو اس موقع پر قوم کی عزت قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ بھی یاد رہنی چاہیے، جسے امریکہ نے بیرونِ ملک اقدامِ قتل کے سازشی مقدمے میں ثبوت کے بغیر چھیاسی (86) سال قید کی سزا سنائی۔

کرنل جوزف کی گرفتاری اور مقدمۂ قتل میں سزا، ڈاکٹر عافیہ کی باعزت وطن واپسی کا وسیلہ بن سکتا ہے۔

چیف جسٹس صاحب! آپ کا کہنا ہے کہ”انصاف، عقل اور قانون سے ہوتا ہے۔ اس قانون کو بدل دینا چاہیے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ قومی امور میں اختیارات کا غلط استعمال اور تساہل انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔”

آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ “انسانی زندگی نعمت ہے۔ ہر انسان کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ وہ اس دنیا میں اذیت اور کسمپرسی کی زندگی کے لیے نہیں بھیجا گیا۔”

تو جناب چیف جسٹس صاحب! آپ اس اعلیٰ ترین ذمہ داری اور جواب دہی کے منصب پر ملکی حالات سے یقیناََ باخبر بھی ہوں گے۔ کیا آپ نہیں جانتے؟ آپ کے ملک کی عزت، حافظۂ قرآن، دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے فارغ التحصیل، آپ کے ملک میں علم کی روشنی پھیلانے کا عزم رکھنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پندرہ سال سے ظالموں کی ناحق اور شرم ناک قید میں کس اذیت اور شدید کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی گئی ہے؟

چیف جسٹس صاحب! آپ، آرمی چیف اور سیاستدانوں سے بس یہی مطالبہ ہے کہ کرنل جوزف کے حوالے سے انصاف کو یقینی اور قابلِ جواب دہی بنایا جائے۔ عدالتی قوانین کو اس حد تک جدیدیت سے ہم آہنگ کیا جائے کہ مقتول عتیق کے لواحقین کو بھی باعزت انصاف میسر آ سکے اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے بھی یہ موقع قانون کے دائرے میں باوقار انداز میں استعمال ہو سکے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.