دھرنے کے دنوں میں ایک آنکھ سے محروم ہونے والی ننھی پری کی سچی کہانی
نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹر وے سمیت کئی شاہرات پر شرپسندوں کو بڑے بڑے ڈنڈے اٹھائے ‘سامنے سے آنے والی ہر گاڑی کو وحشیانہ طریقے سے تباہ کرنے کے منا ظر سب نے دیکھے ہوں گے ۔انہیں دنوں ایک ننھی پری‘ جو اپنے والدین کے ساتھ گاڑی میں سوار تھی‘ جب ان کی گاڑی موٹر وے پر اس مقام پر پہنچی
جہاں شر پسندہر آتی گاڑی پرڈنڈے برسا رہے تھے‘ تو شرپسندوں نے ان کی گاڑی پر بھی حملہ کر دیا۔ننھی پری کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی منت سماجت اور چیخ وپکار کے با وجود یہ شرپسند‘ وحشی جانور وں کی طرح ان کی گاڑی کی توڑ پھوڑ کرنے لگے‘ جس سے ان کی گاڑی کے شیشے کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر خوف سے چیختی ہوئی اس ننھی پری کی آنکھ میں جا لگااور اب وہ عمر بھر کے لیے ایک آنکھ سے محروم ہو چکی ہے۔اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو آپ میں سے کئی افراد دیکھ چکے ہوں گے۔ ننھی پری کی ماں کہتی ہے کہ میں نے ان ظالموں کے آگے ہاتھ جوڑے‘ میرے بچوں نے اورہم سب نے لبیک یا رسول اﷲکے نعرے لگاتے ہوئے‘ آپﷺ کی نا موس کا واسطہ دیا‘ لیکن ان شرپسندوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ننھی کی دنیا اندھیر کر کے فرار ہو گئے۔ ننھی پری کے ماں باپ کہتے ہیں کہ ہم نے تاریخ میںپڑھ ا ور فلموں میں دیکھ رکھا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت سکھوںاور ہندوئوں کے سامنے مسلمان بچے بچیاں اور عورتیں اسی طرح خداکے واسطے دیتی تھیں‘ لیکن ہندو بھیڑیے قہقہے لگاتے ہوئے وحشی جانوروں کی طرح بھالوں اور برچھیوں سے انہیں اپنی بربریت کا نشانہ بناتے تھے۔
یکم سے تین نومبر تک ملک بھر کی شاہراہوں اور بازاروں میں پھیلے ہوئے احتجاجیوں کو کون لے کر آیا؟ اور ان سب کو باقاعدہ ترتیب سے تراشے گئے ہزاروں کی تعداد میں ڈنڈے کس نے پہنچائے ؟ اور وہ ڈنڈا برداروں اپنے سامنے آنے والی ہر موٹر سائیکل‘ گاڑی ‘ ٹرک اور مال بردار گدھا گاڑیوں تک کو بے دردی سے مارتے پیٹتے رہے اور قسم قسم کی گندی گالیاں دیتے رہے‘ جو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر تک پہنچیں۔کیا اس عمل نے دین محمدی ﷺ کے ہر ماننے والے کو شرمسار کر کے نہیںرکھ دیا؟ بھارتی حکومت اور اس کی ایجنسیاں‘ایسی ویڈیوز ان دنوں اپنے قریباً پانچ سو سے زائد قومی اور علا قائی ٹی وی چینلز کے ذریعے دنیا بھر کو دکھاتی رہیں اور نبی کریمﷺ کے سب سے اعلیٰ اور خوبصورت دین اسلام کے بارے میں اپنا جھوٹاپراپیگنڈا پھیلاتی رہیں۔نا موس ِرسول ؐ کے نعرے کی آڑ میں کلمہ پاک اور درود پاک کا ورد کرنے والوں کی محنت مزدوری اور قسطوں پر لی گئی چھوٹے چھوٹے ملازمین کی موٹرسائیکلوں کو نعرے لگاتے ہوئے جلا دیا گیا۔تین رات اور دن موٹر ویز پر چھوٹے چھوٹے دودھ پیتے بچوں اور خواتین کو جس اذیت کا سامنا کر نا پڑا‘ اس کا شکوہ ؛اگر یہ محصور لوگ موٹر ویز پر قبضہ کرنے والے شرپسندوں کے خلاف اپنے رب کے حضور فریاد کرتے ہوئے کریں گے‘
تو دوسری جانب حاکموں اور بزدل پولیس افسران کے گریبان بھی روز محشر ضرور پکڑیں گے ‘جو ان دودھ پیتے بچوں کو یر غمال بنانے والوں کے خلاف بر وقت کارروائی کی جرأت نہ کر سکے ۔ کاش کہ ان محصور ہونے والوں میں کوئی بہت ہی اہم شخصیت یا اس کی اولاد یا رشتہ دار ہوتے‘ تو پھر دیکھتے کہ انہیں وہاں سے نکالا جاتایا نہیں؟ہمارے مہمان سکھ یاتری جو سادھوکی سروس ایریا میں پھنسے ہوئے تھے‘ اچھا کیا کہ ان کو فوج کی نگرانی میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا‘ لیکن اگر ان عورتوں اور بچوں کو جن کی گاڑیوں اور بسوں کو جلا کر راکھ کیا گیا‘ انہیں بھی وہاں سے نکال لیا جاتا‘ تو حکومت کا کتنا خرچہ آنا تھا؟ اگر سکھ یاتری ہمارے معزز مہمان اور ہماری حفاظت میں تھے‘ تو ان بچوں کی حفاظت بھی ریا ست کی ذمہ داری بنتی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل وہ تصویر کوئی ان حکمرانوں اور اداروں کو دکھاتے ہوئے پوچھے کہ ماں کی گود میں بیٹھی ہوئی وہ ننھی پری‘ جن کی گاڑی پر شر پسندوں کے برسائے گئے ڈنڈوں سے ٹوٹنے والے شیشے کا ایک ٹکڑا اس کی آنکھ میں جا لگا اور چند ماہ کی وہ معصوم بچی ‘جو عمر بھر کیلئے اب ایک آنکھ سے محروم ہو چکی ہے…
وہ روز قیامت اپنے رب اور امت کو بخشوانے کیلئے اس کی سفارش کیلئے‘ دربار الہٰی میں موجود رسول خدا‘ محمد مصطفیٰﷺ سے فریاد کرے گی کہ ان لوگوں نے آپﷺ کی ناموس کے نام پرہماری گاڑی پر ڈنڈے برسائے‘ جس سے میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی‘ جس کا نور ان مجرموں نے چھین لیا اور میں کئی گھنٹے طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے وہیں درد سے تڑپتی رہی اور ساری زندگی ایک عذاب میں تیرے حکم تک جیتی رہی۔ میرے ماں باپ ان دردندوں سے منت سماجت کرتے رہے ‘ جو آپﷺ کی ناموس کے نام پر مجھے اور میرے والدین کو وہاں سے نکل کر علاج کی اجا زت نہیں دے رہے تھے ۔ سوچئے کہ وہ کیا منظر ہو گا؟جب رب کائنات کا جلال جوش میں آ ئے گا۔ وہ منظر کیسا ہو گا‘ جب محمد مصطفیٰﷺ خود اﷲ سے کہہ رہے ہوں گے کہ ان لوگوں کو‘ جنہوں نے میری ناموس کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے ‘تیری مخلوق ‘اس ننھی بچی پر رحم نہیں کیا‘ دوزخ کی ایسی آگ میں جھونک‘ جہاں یہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں ۔ افسوس کہ ہمارے ملک کی بد ترین سیا ست اور مغربی جمہوریت کے حصول میں تمام قاعدے اور اصولوں کو قدموں تلے روندنے والے واقعات رونما ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ قرآنی تعلیمات‘ اپنے رب کے ‘اپنے رسول کے صحابہ کرام کے اور صوفیائے کرام کے پیغام کویکسر بھول چکے ہیں۔
ہم پر جنونی جذبات اور منافقت کا آسیب چھا چکا ہے اور ایسے ہی مکار لوگ اپنے فائدے کیلئے ہم سے اپنی مرضی کے شیطانی کام لے جا رہے ہیں۔ تین دن تک آگ اور خون کی بارش کرنے والے جگہ جگہ بکھرے ان وحشی جانوروں کی تصاویر ایک ایک کرتے ہوئے سب کے سامنے آ رہی ہیں ‘ جنہوں نے تین دن تک ملک کا وہ حشرکیا کہ ایک دنیا کانپ اٹھی۔انہوں نے خوبصورت ترین دین اسلام کو اپنی مکروہ حرکات سے بد نام کر کے رکھ دیا۔ شک ہوتا ہے کہ مختلف گروہوں میں پھیلائے گئے یہ سب ہمارے دشمنوں کے سدھائے ہوئے تھے۔ ان میں سے کوئی اسلام کے بنیادی فلسفے پر حملہ آور ہے‘ تو کوئی امن اور پیار ومحبت کا درس دینے والے صوفیائے کرام اور مذہبی سکالروں کی درگاہوں اور مزارات کو نشانہ بنا رہا ہے‘ تو کوئی ایک دوسرے کا‘ فرقہ پرستی کے جنون میں گلا کاٹنے کا درس دے رہا ہے۔ کشمیرمیں ہندو فوج کی پیلٹ گنوں سے معصوم بچے اور بچیاں اندھے ہو کر اندھیروں میں دھکے کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں دشمن نے اندھا کیا ہے کہ وہ بچے بھارتی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج تھے‘ لیکن سوال تو یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان‘ جو اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے‘ یہاں ناموس رسالتﷺ کے نعرے کی آڑ میں اس ننھی پری کو کیوںاندھا کیا گیا؟آخر میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ لوگ ناموس رسالت کے پروانے تھے‘ تو پھر یہ کشمیر کی بیٹیوں کیلئے کبھی احتجاج کرنے باہر کیوں نہیںنکلتے ۔کاش! اللہ ان کو ہدایت اور توفیق دے۔(آمین)