محبت کا ڈھو نگ رچا کر  دوسال میں 200 افراد کو لوٹنے والی حسینہ

جنوبی کوریا کی ایک خوبرو خاتون نے دوسال سے بھی کم مدت میں 200 افراد سے جعلی محبت کا ڈھونگ رچایا اوران سے قیمتی تحائف اورفائدہ اٹھانے کے بعد انہیں خیرباد کہہ دیا۔

ہان مائرم نامی خاتون نے صرف ایک دن میں ہی مرد کو یہ کہہ کرچھوڑدیا کہ اس نے تحفہ کیوں نہ دیا یا اچھی ریستوران میں کھانا کیوں نہیں کھلایا؟ اس کے بعد انہیں ایک ٹی وی شومارس پیپل ایکس فائل میں شرکت کرکے 200 افراد سے تعلقات کا اعتراف بھی کیا۔

ہان نے اعتراف کیا کہ یہ مراسم بہت کم مدت کے لیے قائم رہے جس کے بعد انہوں نے دوسرے مرد سے دوستی کی اور پھراسے بھی چھوڑکرتیسرے سے راہ ورسم بڑھائی۔ ہان نے اعتراف کیا کہ یہ ساری دوستیاں مالی فوائد کے لیے تھیں اور مرد مسلسل اس کے مالی مطالبات سے جوں ہی تنگ آتے وہ انہیں چھوڑ دیتی تھی۔

اپنے آخری شکار کے بارے میں ہان نے بتایا کہ وہ بار بار اپنے اس دوست سے موبائل فون کے بِل کے بارے میں کہتی رہیں اوراس نے 10 ہزارروپے کا بل بھی ادا کردیا لیکن اس کے بعد خاتون نے اسے ریستوران کا بل ادا کرنے کا بھی کہا جس پر اس نے انکار کردیا اور یوں یہ ملاقات بھی اختتام پذیر ہوگئی۔ ہان کے مطابق اب تک وہ سیکڑوں مردوں سے ایک کروڑ کے تحفے، زیورات اور قیمتی آلات وصول کرچکی ہیں۔

ہان کے اس اعتراف کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں ہزاروں افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے تاہم انہوں نے ٹی وی پروگرام کے بارے میں اعتراف کیا کہ وہ اب تک صرف 30 مردوں سے دوستی کرچکی ہیں لیکن ہان کے بقول شو کے پروڈیوسر نے ان سے کہا کہ اگر وہ اس تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تو پروگرام زیادہ مقبول ہوگا کیونکہ شو میں ان سے قبل آنے والے شخص نے 117 خواتین سے محبت کا ڈھونگ رچایا ہے۔

اس بات پر ہان نے ہامی بھرلی اور کہا کہ وہ دو سال سے کم عرصے میں دو سو سے زائد مردوں سے دوستی کرکے انہیں چھوڑ چکی ہے۔ ہان کہتی ہیں کہ میں نے جن 200 افراد کا اعتراف کیا تھا وہ فرضی تھے جنہیں اسکرپٹ رائٹرز نے تیار کیا تھا۔ ہان کے اس اعتراف کے بعد انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ٹی وی چینل نے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پروگرام کے پروڈیوسرز کو بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور معاملات بڑھانے کی اجازت نہیں ہے ہان پر جو تنقید ہورہی ہے اس کا انہیں خود جواب دینا ہوگا‘۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.