اگرموت مانگنا حرام نہ ہوتا تویہ دیکھ کرمیں مرنے کی دُعا کرتا؟ ملک کو ساتویں ایٹمی قوت بنانیوالے ڈاکٹر عبدالقدیرخان سخت مایوس ، ایساکیا ہوا کہ انہیں یہ اعلان کرنا پڑ گیا؟جانئے
نیب کی جانب سے ان دنوں ملک بھر میں احتساب کا عمل جاری ہے اور دھڑا دھڑ گرفتاری بھی ہو رہی ہیں جس سے نہ صرف سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے بلکہ ملک کا دانشور اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی خوفزدہ نظر آرہا ہے۔ ایسے میں جہاں نیب کی کارروائیوں پر سیاسی لوگ اعتراض اٹھا رہے ہیں وہیں پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی سامنے آئے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کالم روزنامہ جنگ میں گاہے بگاہے شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں وہ اصلاح معاشرہ اور انفرادی اصلاح کیساتھ معاشرے میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی قرآن پاک ،
احادیث اور روایات سے کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی تلقین کا انداز نہایت ہی دلچسپ اور دل موہ لینے والا ہوتا ہے۔ اپنے تازہ کالم میں انہوں نے نہ صرف اساتذہ کی اہمیت اور ان کے احترام کا درس دیا ہے وہیں حال ہی میں نیب کی جانب سے گرفتار کئے گئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو ہتھکڑیاں پہنانے پر سخت ردعمل کا بھی اظہار کیا ہے۔ اپنے کالم میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں کہ یوں تو روز ہی ٹی وی پر نہایت شرمناک، قابل مذمّت واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں مگر پچھلے دنوں جو واقعات دیکھنے میں آئے سر شرم و غیرت سے جھک گیا۔ اگرموت مانگنا حرام نہ ہوتا تو یقیناً ان واقعات کو دیکھ کر مرنے کی دُعا کرتا۔(1)پہلا واقعہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہدکامران کو نیب کے کارندے ہتھکڑی لگا کر عدالت لے جارہے تھے سر شرم و غیرت سے جھک گیا۔ میں مجاہد
کامران صاحب کو 35,30سال سے جانتا ہوں بلکہ ان کے والد شبّیر حسین شاہ صاحب (ایڈیٹر پاکستان ٹائمز) کو بھی بہت اچھی طرح سےجانتا تھا ۔ پروفیسر مجاہد کامران ایک اعلیٰ درجہ کے فِزسٹ (Physicist) ہیں۔ بیرون ملک سے ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری لی ہے۔پنجاب یونیورسٹی اورکنگ عبدالعزیز یونیورسٹی ریاض میں فزکس کے پروفیسر رہے۔ لاتعداد اعلیٰ مقالہ جات لکھے ہیں۔ نہایت کمتر اور بھونڈے الزام میں نیب نے ان کوہتھکڑی لگا دی۔ الزام ہے کہ انھوں نے غیرقانونی بھرتیاں کیں۔ کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ آپ سرعام ایک اعلیٰ استاد کی اس طرح توہین کریں۔ اوّل تو بات یہ ہے کہ ملک میں بہت زیادہ بیروزگاری ہے غرباء کو ایک
وقت کا کھانا میسر نہیں۔ اگر ان کو نوکری دے دی توکونسی غدّاری کردی کہ اس طرح کا سلوک کیاجائے۔ محترم جناب چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب نے فوراً نوٹس لیا اور ڈی جی نیب لاہور کی سخت سرزنش کی۔ نوکری سے فارغ کرتے تو صحیح انصاف ہوجاتا۔ نیب کے چیئرمین جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب نے سخت ردِّ عمل کا اظہار کیا۔ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ انکوائری آفیسر اُن کے دفتر جا کر بیان قلم بند کرلیتا اور جج کی خدمت میں پیش کردیتا۔ اگر وہ مناسب اور ضروری سمجھتے تو ڈاکٹر صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ لیتے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کا پاسپورٹ رکھ لیتے۔ پنجاب یونیورسٹی اور طلباء پر ان کے لاتعداد احسانات ہیں۔ سرکاری ملازمت میں جہاں آپ کے پاس اختیار ہوچھوٹی موٹی غلطی ہوجاتی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اٹلی میں ہمارے مشہور، ہردلعزیز مصنف اشفاق احمد صاحب کا ٹریفک میں چالان ہوگیا تھا وہ جب عدالت گئے اور جج کو علم ہوا
کہ وہ پروفیسر ہیں تو اُٹھ کر آیا عزت سے کرسی پر بٹھایا، معافی مانگی اور باہر گاڑی تک چھوڑنے آیا۔ یہاں ہتھکڑی لگائی جاتی ہے۔نیب کے چیئرمین جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال سپریم کورٹ کے سابق جج اور عبوری چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور قوانین سے پوری طرح واقف ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ اس قسم کے قابل نفرت اور غیرمہذبانہ عمل سے اسٹاف کو منع کردیں۔ (2)دوسرا اتنا ہی شرمناک اور قابل مذمّت واقعہ سرگودھایونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری کا ہے میں ان کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے جو یونیورسٹیاں دیکھی ہیں ان میں سرگودھا یونیورسٹی سرفہرست ہے انھوں نے اس کو بوٹانیکل گارڈن بنا دیا تھا۔ نہایت خوبصورت کیمپس ہے۔ آپ نے وہاں پینے کے پانی کا پلانٹ لگایا جو ’’خوش آب‘‘ نامی پانی بوتلوں میںفروخت کرتاہے اس کے علاوہ
نہایت اعلیٰ فارماسیوٹیکل فیکٹری بنائی ہے ۔ پانی کے پلانٹ اور دوائوں کی فروخت سے اتنی آمدنی ہوئی کہ یونیورسٹی تقریباً خود کفیل ہوگئی۔ میں کئی بار وہاں گیا ہوں۔ میری آنکھوں دیکھے کا واقعہ ہے کہ ن لیگ کے متوالے بار بار جعلی بل لاکر ان کے سامنے رکھتے تھے کہ اس پر دستخط کردیں اورلاکھوں روپیہ بٹور لیں۔ ان کے انکار پر ان کو دھمکیاں دی جاتی تھیں کہ نوکری سےنکلوا دینگے۔ کیس بنا کر FIA یا NAB سے گرفتار کرادینگے۔ دھمکیاں رنگ لے آئی ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری ایک عالم دین بھی ہیں قرآن کی تفسیر کے ماہر ہیں، طویل عرصہ مدینہ منورہ میں پروفیسر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہے
ہیں۔ ان پر الزامات لگانا بالکل ناقابل یقین اور غلط ہے۔ وہ باقاعدگی سے T.Vپردرس قرآن دیتے رہے ہیں اور کئی دینی کتب کے مصنف ہیں خاص طور پر کلام مجید پر ان کی کتاب قابل مطالعہ ہے اور اس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔چیئرمین نیب سے مودبانہ درخواست ہے کہ خدا کے لئے اس قسم کے قابل نفرت اور قابل مذمّت اقدامات سے اسٹاف کو روک دیں۔ یہ مناظر دیکھ کر مجھے پہلی مرتبہ یہاں کے بااثر لوگوں سے نفرت ہوگئی۔ مجھے اُمید ہے کہ چیئرمین نیب اور چیف جسٹس صاحب ان پروفیسروں کے ریمانڈ کو کالعدم قرار دے کر ان کو اپنے گھروں میں، اہل خانہ کے ساتھ رہنے کی اجازت دےدیں گے۔