پاکستان کی تاریخ کا وہ واحد واقعہ جب ایک دلہن بارات لے کر فوجی اسپتال ( سی ایم ایچ) پہنچ گئی، آخر یہ نوبت کیوں آئی تھی؟ جان کر آپ پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو سیلوٹ کریں گے

لڑائی چوتھے روز تک پہنچ چکی تھی۔کیپٹن ضیا الرحمن اپنے

مٹھی بھر سرفروشوں کے ساتھ دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔دشمن کو سپلائی مل رہی تھی اور اُدھر پاک فوج کے شیر جوانوں کے پاس کھانے پینے کا سامان اور ایمونیشن بھی اختتام کو پہنچ چکا تھا لیکن وہ کسی صورت اپنا ٹاسک ادھورا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔یہ لڑائی عام نہیں تھی۔شرپسند جنگجو گوریلا جنگ کے ماہر تھے۔دیہاتوں اور گھاٹیوں پر دور تک ان کا مکمل راج تھا ۔جگہ جگہ

ان کے جاسوس اور بارودی ٹھکانے تھے ۔یہ ان کا اپنا شنا سا علاقہ تھا۔ شرپسندوں نے ایوب بریج کا پورا علاقہ نوگو ایریا بنا رکھا تھا ۔اردگرد درجنوں دیہات میں زندگی خطروں میں گری ہوئی تھی ۔شرپسند شب خون مارتے اور علی الصبح بھی معصوم پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیتے تھے۔یہ علاقہ علم کا گڑھ تھے ،بہت سے سرکاری کالج اور سکول اسی علاقے میں تھے ۔دریائے سوات کے

کنارے واقع اس علاقے میں تعلیم کو دہشت گردی نے ڈس لیا تھا ۔ ملحقہ تمام علاقوں پر شرپسندوں کی اجارہ داری تھی جہاں سے دہشت گردوں کو دوسرے علاقوں میں سویلین اور سرکاری دفاتر و فوج پر حملوں کے لئے شہہ مل رہی تھی ۔جب تک دشمن کی یہ لائن کاٹ نہ دی جاتی ، سوات میں امن قائم نہیں ہوسکتا تھا ۔

یہ علاقہ امن کی رگ جاں تھی جس پردشمن نے باردو بھر رکھا تھا ۔ہائی کمان نے ایس ایس جی کے نڈر کیپٹن ضیا الرحمن کو علاقہ کلئیر کرنے کا ٹاسک دیا تو انہوں نے اپنی بندوق کے دستے ہر

ہاتھ رکھ کر سینہ تانا اور زوردار آواز میں کہا’’ میں اپنی جان قربان کرکے بھی علاقہ کلئیر کرادوں گاسر‘‘مسلم باغ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کیپٹن ضیا الرحمن کا پچھلے سال 2008 میں نکاح ہوا تھا لیکن ابھی رخصتی باقی تھی۔انہوں نے 2004 ء میں فوج میں کمیشن لیا اور 2008 ء میں وہ ایس ایس جی میں شامل ہوگئے اور کمانڈو کی اعلا تربیت حاصل کرکے اپنی جراتمندی کا سکہ بیٹھادیا تھا ۔وہ ان دنوں مینگورہ کانجو میں تھے جہاں سے انہیں ایوب بریج کا علاقہ کلئیر کرنے کا مشن سونپا گیا۔ یہ چوتھا روز تھا اور جوان بھوکے پیاسے دشمن کے خفیہ ٹھکانوں تک ریکی

کرکے پہنچ کر ان کا صفایا کر رہے تھے۔انہوں نے آخری گولی تک بھوکے پیاسے رہ کرٹاسک پورا کرناتھا ،ہر جوان پیاس سے خشک ہوتے لبوں کو زبان سے تر کرتا اور پھر دشمن کی کھوج میں نکل اٹھتا تھا ۔پھر کیپٹن ضیا الرحمن کو سب سے ہارڈ ٹارگٹ کو منطقی انجام تک پہنچانے تک رسائی

حاصل ہوگئی مگر اسکے لئے ضروری تھا کہ وہ خود دشمن کی کمین گاہ میں داخل ہوجاتے ۔یہ انتہائی خطرناک مرحلہ تھا۔سامنے مورچہ نما کمرے میں تین دہشت گرد چھپے تھے جو متواتر جوانوں پر

فائرنگ کررہے تھے ۔یہ دشمن کا آخری مورچہ تھا جس کو فتح کرنے کے بعد باقی علاقے کو کلئیر کرنا آسان ہوجاتا۔کیپٹن ضیا الرحمن نے کمرے تک اسکی پشت سے رسائی حاصل کی اور چیتے کی برق سے کمرے میں چھلانگ لگاکر یکے بعد دیگرے اس سرعت سے تینوں دشمنوں پر فائر کھول دیا کہ وہ جہنم واصل ہوگئے لیکن ان میں سے ایک کو گولی چلانے کا موقع مل گیا۔اسکی بندوق سے جونہی شعلے نکلے کیپٹن ضیا الرحمن چوکنے ہوکر اپنی پہلی پوزیش سے قدرے ہٹ چکے تھے لیکن پھر بھی دو گولیاں انکی ٹانگوں میں لگیں ،ایک لمحہ کی تاخیرہوجاتی تو ان کا سینہ

چھلنی ہوجاتا تاہم دوگولیاں ٹانگوں پر لگنے کے باوجود انہوں نے دشمن کو زندہ نہیں رہنے دیا اور دشمن کے مورچے کو کلئیر کرادیا۔اس دوران انکے دوسرے جوان بھی پہنچ گئے اور شدید زخمی کپتان کو اٹھا لائے۔چوتھے دن انہوں نے سارا علاقہ شرپسندوں سے کلئیر کرالیا ۔ غازی کیپٹن ضیا الرحمن کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل کرادیا گیا جہاں انکی

سرجری ہوئی لیکن وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں سکتے تھے اور اسکے لئے ابھی کافی وقت درکار تھا ۔ ہسپتال میں مریضوں کی طرح پڑے رہنا انہیں گوارہ نہ تھا ۔وہ زندگی میں ہلچل پیدا کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے حوصلے اور جرات کی ایک نئی مثال قائم کردی۔انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ ایک ہفتہ کے اندر ان کی شادی کردی جائے۔سب حیران تھے کہ اسقدر زخمی حالت میں یہ کیسے ممکن ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس واقعہ کو گزرے بیس دن ہوچکے تھے لیکن کیپٹن ضیا الرحمن کی منکوحہ کو ابھی تک یہ خبر نہیں تھی کہ وہ ایک آپریشن مین شدید زخمی ہوچکے

ہیں اور سی ایم ایچ میں داخل ہیں۔کیپٹن ضیا الرحمن نے والدین کے تردداور ہچکچاہٹ کو محسوس کیا تو کہا’’ میں شادی اس لئے کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کو بتاسکوں ،پاک فوج کے جوان کبھی ہمت نہیں ہارتے نہ کوئی انہیں بے بس کرسکتا ہے۔وہ بستر مرگ پر بھی ہوں تو آخری وقت تک موت سے لڑنا جانتے ہیں ‘‘ایک ہفتہ کے اندرہی نو جولائی 2009کے دن کیپٹن ضیا الرحمن کی شادی ہوگئی۔پاک فوج کی تاریخ میں کسی افسر کی یہ پہلی شادی ہوگی کہ دلہن بارات لیکرخود سی ایم ایچ پہنچ گئی۔بارات میں کیپٹن ضیا الرحمن کے گھر والے تو تھے ہی،دلہن کے عزیز واقربا بھی ساتھ تھے۔

پورے ہسپتال میں شادی کا ساماں بندھ گیا تھا ۔ہر کسی نے اس جوڑے کو دعائیں دیں ،خاص طور پر اس دلہن کوبے پناہ دعائیں ملیں کہ جس نے سہاگن بن کر سی ایم ایچ میں اپنے بہادر شوہر کی تیماری داری میں رات بسر کی اور اپنے ارمان بہادر شوہر کی دلجوئی سے جوڑ دئیے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.