ایدھی والوں کو ایک گمنام فون آیا کہ فلاں کوڑے کے ڈھیر پر ایک بچی کی لاش پڑی ہے، لے جائیں۔۔۔۔ جب رضا کار وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دلخراش منظر دیکھا اور اصل ماجرا کیا نکلا ؟ پڑھیے

ایدھی مرحوم کے متعلق ایکسٹرا متقی حضرات کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا تھا کہ وہ حرامی بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور ایدھی سینٹرز پر رکھے ہوئے پنگھوڑے اس بات کی ترویج کرتے ہیں کہ معاشرے میں رشتہ مناکحت کے بغیر سیکس پھیلے۔ کیونکہ متقی حضرات بات کہہ رہے ہیں تو

نامور کالم نگار عدنان خان کاکڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس میں ضرور وزن ہو گا۔ ہم خود معاشرے کا بگاڑ دیکھ رہے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کی حالت بری ہوتی جا رہی ہے۔ اقبال بھی اسی صورت پر مایوس ہو کر فرما گئے ہیں کہ خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں، کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری۔ بگاڑ بڑھ رہا ہے حالانکہ متقی حضرات بھرپور

کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی نومولود بچہ زندہ نہ بچ پائے تاکہ معاشرے سے ظلم و فساد کا خاتمہ ہو۔ کچھ عرصہ قبل کوئی شخص مسجد کی سیڑھیوں پر ایک نومولود بچہ چھوڑ کر ایک نہایت متقی امام صاحب کو مشکل میں ڈال گیا۔ خیر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ بچہ شکل سے ہی حرامی لگتا ہے اور اسے سنگسار کر دینا چاہیے۔ ان کے مقلدین نے بچے کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ایک دن ایدھی والوں کو ایک گمنام فون آیا کہ فلاں کوڑے کے ڈھیر پر ایک بچی کی لاش پڑی ہے، لے جائیں۔ ایدھی کے رضاکار گئے۔ وہاں واقعی ایک نومولود بچی کی لاش پڑی

ہوئی تھی۔ اس کا گلا کاٹ دیا گیا تھا۔ ایک بچے کی عمرصرف چھ دن تھی

لیکن اس کو جلا کر پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن عام طور پر ایسا ظلم نہیں کیا جاتا کیونکہ ہمارے ملک میں بہت کم انسان اتنے شقی القلب ہوتے ہیں۔ عموماً بچے کا یا تو دم گھونٹ کر مارا جاتا ہے یا اسے زندہ ہی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے جہاں اسے آوارہ کتے چیر پھاڑ ڈالتے ہیں۔ ایدھی والے واقعی برے لوگ ہیں اور معاشرہ تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نومولود بچے

کا کیا قصور۔ بچے کو ماریں نہیں، بلکہ اتنی ہی شرم آ رہی ہے تو رات کے اندھیرے میں اسے ایدھی سینٹر کے باہر رکھے پنگھوڑے میں ڈال جائیں۔ روشن ضمیر متقی حضرات بتا ہی چکے ہیں کہ پھینکا جانے والا ہر بچہ حرامی ہوتا ہے۔ وہ ایسا کہتے ہیں تو ضرور ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ لیکن یہ جان کر آپ خوب حیران ہوں گے کہ کوڑے میں پھینکے جانے والے ان بچوں میں سے 99 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ جنوری2017 سے اپریل 2018 تک ایدھی فائونڈیشن اور چھیپا ویلفیئر آ رگنائزیشن نے کراچی میں نومولود بچوں کی 345 لاشیں وصول کیں ان میں 99 فیصد بچیوں کی تھیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ لڑکیاں ہی کیوں حرامی ہوتی ہیں؟ ہم نے پوچھا تو نہیں ہے

مگر نیک لوگ ضرور یہی بتائیں گے کہ یہ حرام کام کی سزا ہے کہ اس کے نتیجے میں بچی پیدا ہوتی ہے۔ بات ٹھیک لگتی ہے۔ لڑکی ہونا تو ویسے ہی اس مقدس معاشرے میں ایک بڑا جرم ہے جس کی سزا تاحیات ملتی ہے۔ ایدھی والے نہ صرف ان بچوں کو پالتے ہیں بلکہ ہمیں بھی کنفیوز کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باقاعدہ نکاح شدہ جوڑے بھی اپنی نومولود بچے کوڑے پر پھِینک دیتے ہیں۔ کچھ بچوں کے والدین کی طلاق ہو جاتی ہے اور وہ اس رشتے کی تلخ یاد کو کوڑے کے ڈھیر پر دفن کر دینا چاہتے ہیں۔ کچھ کے متعلق ہمارا یہ گمان ہے کہ ماں نا اہل تھی جو لڑکا پیدا نہ کر سکی اور

باعث شرمندگی لڑکی کو پھینک دیا گیا اور اس کے والدین نئے سرے سے لڑکا پیدا کرنے کی کوشش میں جت گئے۔ کفار مکہ کے متعلق یہ روایت ہے کہ وہ لڑکیوں کی پیدائش پر اس قدر شرمندہ ہوتے تھے کہ انہیں زندہ دفن کر دیتے تھے۔ پاکستانی ویسے نہیں ہیں۔ وہ بچیوں کو زندہ دفن نہیں کرتے بلکہ زندہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں اور انہیں کتے چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ کچھ بچیوں کے ضمن میں یہ ذمہ داری معاشرے کے متقی لوگ اٹھا لیتے ہیں۔ جو لوگ رحم دل ہیں اور وہ اپنے بچوں کو یوں زندہ نہیں پھینکتے۔ مار کر پھینکتے ہیں۔(ش س م)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.