الیکشن 2018 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار ۔۔۔۔۔ پول کھول دینے والے انکشافات ملاحظہ کیجیے

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ الیکشن جنرل باجوہ نے نہیں الیکشن کمیشن نے کروائے، مجھے الیکشن میں پری پول دھاندلی پرتحفظات ہیں،میں نے کالم میں واضح کیا تھا کہ ریاستی ادارے اب نوازشریف کورہنے نہیں دیں گے،آپ نے دیکھاویسا ہی ہو اہے۔انہوں نے نجی ٹی وی

کے پروگرام میں ایک سوال ”نئے پاکستان کا کریڈٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو دے رہے ہیں؟“کے جواب میں کہا کہ میراخیال ہے کہ ابھی جوڈکٹرائن ہے اس میں پورا ادارہ یا ایک سوچ شامل ہے۔کہ 1985ء کی پارٹیز سلیکشن نے بہت نقصان کیا ہے۔پارٹیوں کو ٹارگٹ کرنے میں بہت نقصان ہوا، کراچی میں جو مذہبی گروپس بنائے گئے انہوں نے ملک کوبڑانقصان پہنچایا۔یہ حقیقت ملک بھر میں ہر جگہ موجود ہے۔جوبھی پرخلوص پاکستان کے بارے میں سوچنے والے ہیں وہ بہت کم ہیں۔چاہے وہ سیاستدان ہیں یا آرمی کے لوگ ہیں۔اس سلیکشن سے چیزیں کافی حد تک واضح ہوگئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن جنرل باجوہ نے نہیں بلکہ الیکشن تو الیکشن کمیشن نے ہی کروایا ہے۔لیکن

میں انہیں جوافغانستان کی خارجہ پالیسی میں جوتبدیلی آئی ہے اور ہم نے جو ایران کے ساتھ اپنے معاملات کو اچھا کیا ہے۔جوامریکہ کے ساتھ ہم اسٹریٹجک ڈائیلاگ کررہے ہیں اور جوہم نے روس کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم جو1985ء میں مانسٹرن کھڑ ے کیے تھے ان کوہم نے بریک کیا ہے اور کراچی کوآزاد کیا ہے۔فرقہ ورایت والے گروپس نیچے گئے ہیں اور انتہا پسندی کوشکست ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے الیکشن میں پری پول دھاندلی پرتحفظات ہیں۔

میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”دی پارٹی از اوور“جس میں واضح کیا تھا کہ ریاستی ادارے اب نوازشریف کورہنے نہیں دیں گے۔ ویسا ہی ہو اہے۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں پہلے ہی بہت کمزور ہیں لیکن دھاندلی والے داغ سے سیاست کوناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق دودھ نور ہے، کھیر ہے، خدائی نعمت ہے، مگر کوئی اس نور سے گاڑی چلانے کی کوشش کرے تو ناکام ہوگا۔ دودھ کی عظمت ا پنی جگہ مگر گاڑی چلانے کے لئے بہرحال ڈیزل اور پٹرول ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دنیا قوانین قدرت کے تحت چلتی ہے کسی کی خواہش ، زور زبردستی یا تحریر و خطاب سے حقائق نہیں بدلتے، جس طرح گاڑی دودھ سے نہیں چلتی

بالکل اسی طرح کچھ بھی کرلیں عوام آمریت سے خوش نہیں رہ سکتے۔ اسی طریقے کے مطابق جمہوریت فوج نہیں چلا سکتی اسے اہل سیاست کے ذریعے ہی چلانا پڑے گا۔ اسی اصول کو مدنظر رکھیں تو تاریخ میں عدالتی فیصلوں کو عوام نے آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کیا بلکہ سیاست کے فیصلے، ان عدالتی فیصلوں سے اکثر مختلف ہوتے ہیں۔پاکستان کی 70سالہ تاریخ کو دیکھیں تو کئی بار جمہوریت کی قبر کھود کر آمریت کی نگرانی میں کانٹوں والے بیری کے پودے کاشت کئے گئے مگر جب وہ درخت پھیلتے اور پھولتے ہیں تو ان پر لگنے والے بیر میٹھے ہوتے ہیں۔(ف،م)

Source

Comments are closed.