آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج، پاکستانی معیشت کی بحالی یا پھندا؟
پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے گزشتہ ہفتے بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے معاہدہ کیا ہے تاکہ اپنی سست معیشت کی رفتار بڑھاسکے تاہم ماہر معاشیات کے مطابق اس پروگرام سے معاشی استحکام حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
خبر رساں ایجنسی ‘انادولو’ کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ 3 سال کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام، جو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے باضابطہ طور پر جولائی کے مہینے میں منظور کیا جائے گا، سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو
یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے 1988 سے اب تک کا 13واں اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام ہے۔
کراچی میں مقیم ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘ گزشتہ پروگراموں کے مقابلے میں اس پروگرام کی اصل توجہ فی الوقت استحکام اور بعد ازاں نمو ہے تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ ان پروگراموں کے آخر میں پاکستان کا شرح نمو 1988 سے جنوبی ایشیا کی سب سے کم ترین سطح پر رہا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کی وجہ مصنوعی استحکام ہے جو شرح نمو پر اثر انداز ہوتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آئی ایم ایف کے پروگرام کی ایک اور اہم شرط ٹیکس جمع کرنے کے اہداف کو بڑھا کر بجٹ کا خسارہ کم کرنا ہے جو متعدد سیاسی وجوہات کی بنا پر انتہائی مشکل ہوگا’۔
معاہدے کے تحت حکومت کا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پر کوئی اختیار نہیں ہوگا بلکہ یہ اوپن مارکیٹ کے تحت چلے گا۔
اس کے علاوہ حکومت بجٹ 20-2019 میں 350 ارب روپے کی متعدد ٹیکسز میں استثنیٰ کا خاتمہ کرے گی۔
شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘روپے کی قدر میں کمی سے ملک کی بر آمدات میں اضافہ ہوگا اور درآمدات میں کمی آئے گی تاہم بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیداوار کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘روپے کی قدر میں کمی سے خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جو پاکستان اپنی برآمداتی اشیا کے لیے در آمد کرتا ہے’۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ درآمدات میں اضافہ ملک کی 300 ارب ڈالر کی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، پاکستان کی سالانہ درآمدات 60 ارب ڈالر کی ہے جبکہ برآمدات 24 ارب ڈالر ہے۔