اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر پنجاب اسمبلی بنا کر کیا سیاسی چال چلی ؟ ڈاکٹر اجمل نیازی نے انوکھی مگر سچی بات کہہ دی
نامور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان نے آتے ہی ایک پھرتی دکھائی تھی، انہوں نے پہلا اعلان پنجاب اسمبلی کے لئے چودھری پرویز الٰہی کے سپیکر بننے کا کیا تھا۔ اگر چودھری صاحب کو حکومت کے دوسرے معاملات میں شریک کیا جاتا تو بہت فائدہ ہوتا۔ چودھری صاحب بہت جذبے میں ہیں
اور بہت زبردست ولولہ رکھتے ہیں ۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے بھی ایک مکمل اور پُرامید سیاستدان ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ پانچ سال بعد ایسا پاکستان چھوڑ کر جائیں گے کہ یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا۔ صاف شفاف پاکستان بھی ہمیں چاہئے مگر خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان پہلے چاہئے۔ عمران خان وہ کام پہلے کر رہے ہیں جو خودبخود ہو جائیں گے۔ نیا پاکستان تو پہلے بنائو پھر دیکھو اوردیکھتے رہ جائو ۔ مگر ایک سینئراور مخلص سیاستدان سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کے ابھی دو ماہ ہوئے ہیں۔ کچھ صبر کیا جائے ، جنہوں
نے بیس سال تک ملک کو اپنے لئے استعمال کیا اس وقت تو کوئی نہیں بولا۔ اب نئی حکومت کوکچھ وقت دو۔ ایسا وقت پھر نہیں آئے گا۔ چودھری صاحب بہت مطمئن نظر آ رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان پولنگ سٹیشن آئے۔ وہ بھی ایک ووٹر تھے۔ مگر جو پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر اُن کے لئے کیا گیا یہی کچھ نواز شریف کے لئے ہوتا تھا تو ہم کیا سمجھیں۔ کئی باوردی لوگ اُن کی کارکے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔
جیسے پہلے بھاگتے تھے۔ اس دفعہ بے چارے پروٹوکول اور سکیورٹی والے کچھ زیادہ پریشان اور افراتفری کا شکار تھے۔ عمران خان ووٹ ڈال کے واپس گئے تو بھی سکیورٹی اور پروٹوکول والے زیادہ ہی ’’مستعد اور مشتعل ‘‘نظر آئے۔ عمران خان ابھی نیا پاکستان نہیں بنا سکے مگر اُمید سی ہے کہ عمران کچھ نہ کچھ کریںگے۔ ورنہ ایک بربادی ہے جو ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ اخبارات میں ہمارے لکھنے والے اور لکھنے والیاں اب کالم اور پورے مضمون میں فرق نہیںکرتے نہیں کرتیں جو پڑھتے ہیں اس کا خلاصہ لکھ دیتے ہیں۔ اُسے عالمانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کالمانہ بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ نہیں کرتیں ۔ میں محترم خواتین کے لئے
بار بار زور دے رہا ہوں کہ کچھ خواتین کی تحریریں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ اب ذرا کم اچھی لگتی ہیں مگر بُری نہیں لگتیں۔ وہ جو صرف اخبار پڑھتے ہیں سُرخیاں اور چیدہ چیدہ خبریں پڑھ کر اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں۔ وہ اس طرح اپنی مائنڈ پاور کیا بڑھائیں گے۔ کوئی خزانہ اپنے اندر کیسے تلاش کریں گے۔ کالم تو ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ ہم نے ہلکا اڑا کے صرف اُسے پھلکا رہنے دیا ہے۔ کالم پڑھنے والا خوش ہونا چاہتا ہے۔ مگراب اس نے ایسے کالم پڑھنا چھوڑ دئیے ہیں۔ ’’کالم نگاروں‘‘ کے علمی رعب میں آ کے انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ (ش س م)