’مجھے یہ چیز ڈھونڈ کر لاکردو‘ وزیراعظم عمران خان نے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کو ہدایت کردی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن میں جیتتے ہی قوم کے ٹیکسوں کے پیسے کی حفاظت کا اعلان کیا اور وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالنے کے بعد اس ضمن میں کاوش بھی شروع کردی اور اب انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم نے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کو بھی ذمہ داری سونپ دی ہے کہ وہ لوٹے ہوئے اثاثوں کا کھوج لگائیں اور ایک ہفتے میں آصف زرداری اور شریف برادران کی کرپشن کے ثبوت مانگ لیے لیکن پھر آئی بی کے سربراہ کیساتھ کیا سلوک کیا گیا، معروف صحافی نے حیران کن انکشاف کردیا۔
روزنامہ جنگ کیلئے اعزاز سید نے لکھا کہ ’’چودہ اگست 2018کی صبح عمران خان اپنی بنی گالہ کی رہائش گاہ پر دیرینہ دوست زلفی بخاری کے ہمراہ موجود تھے۔ وہ منتخب ہوچکے تھے اور ٹھیک چار روز بعد انہوں نے وزارت عظمی کا حلف اٹھانا تھا۔ یہ پہلا یوم آزادی تھا جو عمران خان اپنی انتخابی فتح کے ساتھ منا رہے تھے۔ اس روز کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین خفیہ ایجنسی آئی بی کے قائم مقام سربراہ شجاعت اللہ قریشی اپنے ایک جونیئر افسر کے ہمراہ انہیں ملنے آرہے تھے۔ عمران خان پہلی بار کسی آئی بی چیف سے ملاقات کررہے تھے۔شجاعت اللہ قریشی اپنے اسٹاف آفیسر بلال برکی کے ہمراہ وزیراعظم کے کمرے میں داخل ہوئے تو وزیراعظم نے ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کرسی کھینچ کران کے پاس بیٹھ گئے۔ شجاعت اللہ قریشی گریڈ اکیس کے آئی بی کے سب سے سینئر افسر تھے اور انہیں نگران دور میں تعینات آئی بی چیف احسان غنی کی ریٹائرمنٹ کے بعد وقتی بنیادوں پرآئی بی اموردیکھنے کیلئے صرف ڈیڑھ ہفتہ قبل ہی خفیہ ادارے کا قائم مقام سربراہ مقررکیا گیا تھا۔
شجاعت اللہ قریشی نے عمران خان کو آئی بی کی طرف سے انسداد دہشتگردی کے شعبےمیں حاصل کی گئی کامیابیوں پرکم و بیش پندرہ منٹ تک بریفنگ دی اور بتایا کہ عملی طور پر آئی بی اس شعبے میں سب سے آگے پہنچ چکی ہے۔ بریفنگ کے بعد عمران خان بولے کہ، قریشی صاحب یہ بتائیں کہ میرے دھرنے کے دنوں میں نوازشریف دور کے آئی بی چیف آفتاب سلطان نے کس کس صحافی کو پیسے دئیے اور خفیہ فنڈز کہاں کہاں خرچ کیے؟ قریشی بولے آپ وزیراعظم کا منصب سنبھال
رہے ہیں اب آئی بی کا سارا ریکارڈ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ آئی بی نے کسی صحافی ، اینکر یا کسی غیر ضروری جگہ کوئی رقم تقسیم نہیں کی البتہ آئی بی کی استعداد کار میں اضافے کیلئے ایکوئپمنٹ ضرورخریدا گیا ہے۔ عمران خان بولے ، میں نے آفتاب سلطان کی تعریف سنی ہے مگرمیں حیران ہوں کہ وہ شریف خاندان کے فاشسٹوں کے ساتھ کیسے رہے۔ یہ وہی عمران خان بول رہے تھے جو دھرنے کے دنوں میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر آفتاب سلطان کے خلاف تقریریں کرتے تھے۔ قریشی نے عمران کو بتایا کہ آفتاب سلطان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی دور میں یوسف رضا گیلانی اور متحارب مسلم لیگ ن کے دور میں نوازشریف کے آئی بی چیف رہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ وہ اپنا کام جانتے تھے ۔
عمران خان نے بات کا رخ تبدیل کیا اور آئی بی کے قائم مقام سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ لوٹے ہوئے اثاثوں کی کرپشن کا کھوج لگائیں۔ ملاقات ختم ہوگئی اورقریشی واپس آگئے‘‘۔
انہوں نے لکھاکہ ’’اس ملاقات کے بعد عمران خان مرکزی اور صوبائی کابینہ کی تشکیل میں مصروف ہوگئے اورانہوں نے بیرسٹرشہزاد اکبر سے رابطہ کیا تاکہ بیرون ممالک سیاستدانوں کے کاروبارکا کھوج لگا سکیں۔ ٹھیک بیس روز بعد 5 مئی کو ایک بار پھر آئی بی چیف کو وزیراعظم سے ملاقات کیلئے طلب کیا گیا ۔ اس بار عمران حلف اٹھا چکے تھے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد کے چوتھے فلور پر عمران اپنے پرانے بااعتماد دوستوں کے ساتھ موجود تھے۔
شجاعت اللہ قریشی کمرے میں داخل ہوئے تو عمران خان نے خیر خیریت پوچھنے کے بعد انہیں کہا کہ ، ” مجھے صرف ایک ہفتے کے دوران شریف برادران اور زرداری کی کرپشن کےثبوت چاہئیں، اس کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لائیں،”۔ وزیراعظم کے احکامات کو ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے نوٹ کیا اور قریشی باہر نکل گئے ۔ یہ ملاقات صرف دو سے تین منٹ کی ہی تھی۔ عمران کی اگلی ملاقات ایک اورطاقتورادارے کے افسر سے تھی۔
دو روز بعد پولیس گروپ کے گریڈ بائیس کے افسر کو آئی بی کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ آئی بی میں تینتیس سال خدمات سرانجام دینے والے گریڈ اکیس کے افسرشجاعت اللہ قریشی نے یہ کہتے ہوئے ریٹائرمنٹ سے قبل چھٹی کی درخواست دیدی کہ وہ اس ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں اب کسی اور پوزیشن پر کام نہیں کرسکتے۔ حیران کن طور پر اگلے چند دنوں میں آئی بی میں تعینات اہم سینئرافسران کوآئی بی سے باہر پوسٹ کردیا گیا‘‘۔