آئی ایم ایف والی مائی جی : خدا کے لیے میرے بیٹے کو نشہ نہ بیچو:صف اول کے پاکستانی کالم نگار کی تحریر پڑھ کر آپ کو پتہ چلے گا عمران خان آئی ایم ایف کے پاس کس مجبوری کے تحت گئے

نامور کالم نگار سید وجیہہ الحسن بخاری روزنامہ پاکستان میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ قبل ہم ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک جگہ شور اور بھیڑ دیکھ کر رک گئے کہ دیکھیں کیا معاملہ ہے۔ ایک بوڑھی عورت ایک موٹے شخص سے رو رو کر کہہ رہی تھی کہ اس کے بیٹے کو نشہ نہ بیچا کرے۔

وہ موٹا ارد گرد ہجوم میں کھڑے لوگوں سے مخاطب ہوا کہ کیسی عجیب عورت ہے کہ بجائے اپنے بیٹے کو سمجھانے کے ،مجھے لیکچر دینے چلی آئی ہے۔ بڑھیا بھی ہجوم کی طرف دیکھ کر کہنے لگی کہ میں کیا، میری بہو یعنی بیٹے کی بیوی بچے بھی اسکے آگے بہتیرے ہاتھ جوڑ بیٹھے ہیں ، وہ باز نہیں آتا۔ گھر کا سارا سامان بک چکا ہے،اب آخری کوشش کے طور پر اس انسان کے آگے ہاتھ جوڑنے آئی ہوں کہ وہ باز نہیں آتا تو تم ہی ہم پر رحم کرو۔ ہمارا حال بھی اس بڑھیا جیسا ہی ہے۔ہم یعنی غریب عوام نے ،ہر حکومت کے آگے ہاتھ جوڑے ہیں کہ ’’آئی ایم ایف‘‘(انٹر نیشنل مونیٹری فنڈ)نامی ادارے سے دور رہے۔ جنرل الیکشن میں ہر پارٹی زور و شور سے اعلان کرتی ہے کہ وہ قوم کو ’’آئی ایم ایف ‘‘ سے نجات دلائے گی۔ پیپلزپارٹی ہو یا ن لیگ اور اب تحریک انصاف۔ ہر پارٹی کا یہی وعدہ تھا کہ وہ ’’آئی ایم ایف‘‘ سے دور رہے گی لیکن معلوم نہیں ’’آئی ایم ایف‘‘ کے پاس کون سی ’’گیڈر سنگھی‘‘ ہے کہ ہر نئی حکومت آتے ہی اس کے در پر خوشی خوشی سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی الیکشن میں سابقہ حکومتوں کی اس پالیسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آکرکبھی ’’آئی ایم ایف‘‘ کے پاس نہیں جائیں گے لیکن حال ہی میں انڈونیشیا میں ایک کانفرنس میں وزیر خزانہ جناب اسد عمر اور ’’آئی ایم ایف‘‘ کی چیئرو مین اور ایم ڈی محترمہ کرسٹائن لیگارڈ کی مصافحہ کرتی تصویر نے ہمارے ہوش اڑا دیئے اور ہم مسلسل ’’جل تو جلال تو‘‘ کا ورد کرنے لگے اور یہ ورد اس وقت ختم ہوا جب ’’آئی ایم ایف‘‘ ٹیم پاکستان آگئی اور ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس جاوے ہی جاوے،اسی لئے آخری چارہ کار کے طور پر اس بڑھیا کی طرح ہم نے بھی حکمرانوں کی بجائے محترمہ کرسٹائن لیگارڈ سے ہی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محترمہ کی عمر 62 سال ہے لیکن وہ صحت مند اورفعال ہونے کے باوجود سفید بالوں اور جھریوں کی وجہ سے اپنی اصل عمر سے بڑی نظر آتی ہیں سو ہم انہیں احترام سے ’’مائی صاحبہ‘‘ کہیں گے۔ہم بڑے عاجز ہو کر مائی صاحبہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے باپوں (حکمران ریاست کے عوام کے ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں)کو کوئی رقم نہ دی جائے کیونکہ اس کے عوض جو شرائط آپ رکھتی ہیں ان کو پورا کرنے کی سکت اب ہم میں نہیں رہی۔

آپ کی جو عمر ہے اس عمر میں رحمدلی اور انسانیت سے محبت بڑھ جاتی ہے لیکن شاید کچھ ’’بدقسمت بوڑھوں‘‘کو استثنیٰ حاصل ہے جو آج کل اپنے گلے میں کھربوں کی کرپشن کا طوق لٹکائے وہیل چیئر پر عدالتوں میں ذلیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آپ پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ عام آدمی کو سکھی نہیں دیکھنا چاہتیں۔ جب بھی آپ کو قرض کے لئے درخواست ملتی ہیں ، آپ کی ساری حسیات جاگ جاتی ہیں،آپ کی آنکھیں پھیل کر یہ ڈھونڈنا شروع ہو جاتی ہیں کہ کن کن راستوں سے عام اور غریب آدمی کو فائدہ ہو رہا ہے تاکہ وہ راستے بند کئے جائیں۔جیسا کہ موجودہ درخواست کے لئے آپ کا بڑا مطالبہ ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی جائیں اور بجلی پر ایک کھرب چھیالیس ارب کی سبسڈی ختم کی جائے۔ صرف اسی ایک قدم ہی سے بجلی کے نرخ جو پہلے ہی عوام کی دسترس سے باہر ہیں،’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق عوام کی کمر مکمل توڑ کر رکھ دیں گے۔ نتیجہ کے طور پر جو مہنگائی کا طوفان آئے گا،وہ بڑی تعداد میں قیمتوں میں اضافے کا بھی سبب بنے گا۔ اﷲ کی بندی! تمہارا اور تمہارے ادارے کا فوکس اس بات پر ہونا چاہئے کہ تمہارے پچھلے قرضے صحیح استعمال ہوئے یا نہیں۔

یہ جو لانچوں میں کھربوں ڈالر باہر گئے ہیں وہ تمہارا ہی دیا ہوا قرضہ تھا۔ یہ جو لندن،پیرس اور دبئی میں بڑی بڑی بلڈنگیں خریدی گئی ہیں ،وہ بھی تمہارے ہی دیئے ہوئے قرضوں سے لی گئی ہیں۔ سوئس اور دبئی کے بنکوں میں پڑے اربوں ڈالربھی تمہارے ہی دیئے ہوئے ہیں ۔ یہ جو بے نظیر انکم سپورٹ اور تعمیر وطن جیسے خوبصورت ناموں والے ’’کھاؤ پیو‘‘ پروگرام ہیں وہ سب تمہاری ہی کرم نوازی ہے۔ پچھلے دور میں جب سابق وزیر خزانہ تم سے مذاکرات کررہے تھے تو تم نے ان سے کیوں نہیں پوچھا کہ میاں تم میں ایسی زبردست صلاحیت کہاں سے آئی کہ اپنے اثاثے ستر گنا بڑھا لئے۔ یہ صلاحیت وطن کے لئے کیوں بروئے کار نہیں لاتے جس کوتم نے ستر گنا نیچے کر دیا ہے۔ کبھی تم نے ان حالات اور اسباب کے ختم کرنے کی بات کی، جس کے نتیجے میں ’’ایک زرداری پوری قوم پربھاری‘‘ پڑ جاتا ہے۔تم بجلی بڑھانے کی بات کرتی ہو ،کبھی ان’’ کنڈوں‘‘ کی بات بھی کرو جو بااثر لوگوں نے لگا رکھے ہیں اور جن کا بل ہمیں دینا پڑتا ہے۔ افسو س اور دکھ اس بات کاہے کہ تمہارا دیا ہوا قرض اور اس کا سود ہمارے اور ہماری آنے والی دس نسلوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ آخر میں ’’مائی صاحبہ‘‘ سے ایک اور بات۔ جب بھی نئے قرض کے لئے تم سے درخواست کی جاتی ہے تو تم پہلے ڈالروں کی جھلک دکھلاتی ہو اور ساتھ ہی روٹھ جاتی ہو کہ مجھے منانا ہے تو پہلے بجلی مہنگی کرو، وزیر خزانہ بجلی مہنگی کردیتے ہیں۔ تم پھر روٹھ جاتی ہو کہ اب گیس مہنگی کرو،وزیر خزانہ گیس مہنگی کرکے تمہیں منالیتے ہیں لیکن تمہارا روٹھناختم نہیں ہوتا،کبھی فلاں ٹیکس لگاؤ اور کبھی فلاں۔ سیچوئیشن اس فلمی گیت جیسی ہو جاتی ہے کہ ’’تم روٹھی رہومیں مناتا رہوں،کہ ان اداؤں پر اور پیار آتا ہے‘‘ آپ سے آخری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ پکی پکی روٹھ جائیے،ہمارے وزیر خزانہ چاہے کتنا ہی منائیں ،آپ نہ مانیں۔اسی طرح ہی آپ سے جان چھوٹ سکتی ہے،’’تم روٹھے ہم چھوٹے‘‘!(ش س م)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.