خان صاحب : اگر آپ ریحام خان کی گندی کتاب کے جواب میں ایک کتاب لکھ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتے ہیں تو میں آپ کے کام آ سکتا ہوں ۔۔۔عمران خان کو یہ آفر کرنے والے صحافی کا کیا حشر ہوا ؟ توفیق بٹ کا انکشاف

پورے بائیس برسوں بعد عمران خان کی محنت کا صلہ پاکستان اور اس کے عوام کو ملتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ محنت اس نے اپنے لیے نہیں کی۔ یہ محنت اس نے پاکستان کے کروڑوں عوام کو ان کے وہ حقوق دلانے کے لیے کی جس کا ادراک

نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔خودعوام کو بھی نہیں ہے۔عمران خان نے انہیں اس مقام بلکہ عزت مندانہ مقام پر لاکر کھڑے کردیا جہاں پہلی بار انہیں احساس ہوا وہ انسان ہیں اور ان کے کچھ حقوق بھی ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر حکمرانوں نے اپنے عوام یا رعایا کو ہمیشہ بھیڑ بکریاں اور کیڑے مکوڑے ہی سمجھا۔ عمران خان نے اِن ”بھیڑ بکریوں“ اور ”کیڑے مکوڑوں“ کو یہ شعور دیا کہ اللہ نے اُنہیں اشرف المخلوق کے طورپر پیدا کیا ہے۔ آج اگر کوئی ”کیڑا مکوڑا“ یا ”بھیڑ بکری“ اپنے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے سامنے

ڈٹ کر کھڑے ہوجاتا ہے اور اس سے اس کی پانچ سالہ کارکردگی کا حساب مانگتا ہے تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جس میں ایک نمایاں کردارعمران خان کا بھی ہے، ممکن ہے وہ جب خود وزیراعظم بنے اسے یہ احساس ہو ان کروڑوں ”کیڑے مکوڑوں“ اور ”بھیڑ بکریوں“ کو انسان بنا کر اس نے غلطی کی مگر تاریخ میں اس کا یہ ”کارنامہ“ یادرکھا جائے گا اُس نے عوام کے اندر حق سچ کے لیے کھڑے ہونے اور ڈٹ جانے کا جذبہ پیدا کیا ۔ اپنے کردار سے یہ پیغام بھی دیا کوئی بھی کام نیک نیتی اور سچے جذبوں سے کیا جائے

اس میں کچھ رکاوٹیں وقتی طورپر ضرور کھڑی ہوسکتی ہیں مگر بالآخر کامیابی ہی انسان کے قدم چومتی ہے۔ عمران خان ہمیشہ یہ کہتا ہے ”انسان کے ہاتھوں میں صرف کوشش ہے، کامیابی اور ناکامی اللہ کے اختیار میں ہے“ ۔ اس کی جگہ کتنی ہی ہمت والا کوئی شخص کیوں نہ ہوتا دوچار برسوں بعد تھک کر بیٹھ جاتا۔ میں اکثر اس سے کہتا تھا اور ذاتی طورپر بھی یہ سمجھتا تھا سیاست اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اور یہ جو عوام کے دل ودماغ تبدیل کرنے کی فکر میں وہ مبتلا ہے اس میں کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جواباً وہ ہمیشہ مجھ سے

یہی کہتا ”میرے اختیار میں صرف کوشش ہے وہ آخری دم تک میں کرتا رہوں گا “ ۔….اس نے اپنی قیمت لگانے کی ہرکوشش ناکام بنادی۔ اس نے ثابت کردیا پاکستان کی غلیظ ترین سیاست میں کوئی ”بکاﺅ مال“ نہیں بھی ہوتا۔ ”فنکار شریف برادران کے بے شمار دکھوں میں ایک بڑا دکھ یہ بھی ہے وہ پوری کوشش کے باوجود اُسے نہیں خرید سکے، اور جب خرید نہیں سکے تو دوسرے غیر اخلاقی حربے اُنہوں نے استعمال کیے جو ان کی فطرت ہے۔ ان کی ساری کوششیں سارے حربے ناکام ہوگئے،

یہاں تک کہ ایک عورت کو استعمال کرنے کا حربہ بھی بُری طرح ناکام ہوگیا۔ اب عمران خان کے وزیراعظم بننے کی اطلاع پر وہ بے چاری ڈپریشن کا شکار ہے اور سنا ہے یہ صفائیاں پیش کررہی ہے کہ ” خان صاحب کو میرے بارے میں لوگوں نے ایسے ہی بھڑکایا ، اصل میں تو یہ کتاب میں نے عمران خان کے بارے میں نہیں عمران ہاشمی کے بارے میں لکھی تھی “۔….جہاں تک عمران خان کی اخلاقیات کا تعلق ہے بیرون ملک قیام پذیر ایک صحافی نے اُسے یہ آفر کی وہ اگر چاہے ایک کتاب لکھ کر ریحام کو اُسی طرح بدنام کرسکتا ہے جس طرح اُس نے اُسے کرنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ ریحام کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ عمران خان نے اس صحافی کی یہ آفربُری طرح مسترد کردی، اور اُس سے ملنا تک گوارا نہ کیا۔ آج وہ عورت رسوا ہوکر رہ گئی ہے اور عمران خان کو اللہ نے ایسے عزت مندانہ مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اگلے روز واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں امریکہ کی مشہورترین فوڈانڈسٹری IHOPکے مالک Tommy Tsitourisنے مجھے اور میری فیملی کو ناشتے پر مدعو کیا اور فرمایا ” امریکہ میں مقیم کئی پاکستانی دوستوں نے کئی بار مجھے قائل کرنے کی

کوشش کی آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں مگر پاکستان میں دہشت گردی خصوصاً کرپشن کی وجہ سے میں نے ہمیشہ ان سے معذرت کی۔ اب جبکہ عمران خان جیسا دیانتدار وزیراعظم پاکستان میں آرہا ہے تو میں بھی دسمبر میں پاکستان آرہا ہوں اور جائزہ لوں گا، ہم کس طرح پاکستان کے تین بڑے شہروں میں اپنا ریسٹورنٹ ”IHOP“کھول سکتے ہیں “ ۔…. عمران خان پر بیرونی دنیا اندھا دھند اعتماد کرتی ہے۔ اندرونی دنیا بھی کرتی ہے۔ جنم جنم کے ”سیاسی بچھو“ اسے کام کرنے کا موقع فراہم کریں، خصوصاً اچھے کاموں میں دل کھول کر اس کی حمایت اور مدد کریں مجھے یقین ہے پاکستان کو اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ ابھی عمران خان اقتدار میں آیا نہیں صرف اس کا نام آیا ہے اس کی برکت سے آسمانوں کو چھوتا ہوا ڈالر واپس زمین پر آنا شروع ہوگیا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں مقیم کئی گوروں اور پاکستانیوں

نے مجھ سے پوچھا ” عمران خان کو بڑا کمزور مینڈیٹ ملا ہے، ان حالات میں وہ کیسے کام کرسکے گا؟“۔ میں نے عرض کیا ”وہ ایک دیانتدار انسان ہے۔ ایسے دیانتدارانسان بطور حکمران پاکستان کے مقدر میں بہت کم لکھے گئے۔ ممکن ہے اس کی اسی دیانتداری کی برکت سے

اُس کی حکمرانی کے راستے میں حائل ساری مشکلات اللہ دور فرمادے، ….الیکشن سے قبل اُس پر الزام لگایا گیا وہ ”خلائی مخلوق“ کی مددسے اقتدار میں آرہا ہے، یہ الزام اُس پر اُس ”کرپشن شریف“ نے لگایا جو خود ساری زندگی خلائی مخلوق کی مدد اور تعاون سے اقتدار میں آتا رہا ہے۔ مگر اقتدار میں آکر وہ بھول جاتا ہے جو ”خلائی مخلوق“ اقتدار میں لاسکتی ہے وہ اقتدار چھین بھی سکتی ہے۔ اس کے اِس الزام میں ممکن ہے تھوڑی بہت حقیقت بھی ہو، اس سے بڑی حقیقت مگر یہ ہے عمران خان لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ مجھے اُمید ہے اس کا اقتدار بھی لوگوں کے دلوں سے اُسے نہیں نکال سکے گا۔ خصوصاً اوورسیز پاکستانیوں کے دلوں کی وہ دھڑکن ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق حاصل ہو جاتا تو 25جولائی کو کپتان کسی کو پکڑائی ہی نہ دیتا ،…. ایک واقعہ چند روز قبل مجھے عدلیہ کی ایک بڑی شخصیت نے سنایا تھا ”ان کے آٹھ سالہ نواسے نے اُن سے کہا ” نانا ابو میرا شناختی کارڈ بنوادیں “ ،….اُنہوں نے فرمایا ” بیٹا شناختی کارڈ کے لیے اٹھارہ سال کی عمر مقرر ہے، آپ ابھی آٹھ سالوں کے ہوئے ہو، آپ کا شناختی کارڈ دس برسوں بعد بنے گا“

بچہ بولا ” نانا ابو آپ اتنے بڑے عہدے پر ہیں میرا یہ معمولی سا کام نہیں کرسکتے ؟“…. اس پر انہوں نے پوچھا ” اچھا یہ بتاﺅ تم نے شناختی کارڈ بنواکر کیا کرنا ہے ؟ وہ بولا ” میں نے عمران خان کو ووٹ دینا ہے“…. کون سی ”خلائی مخلوق “ ہے جو ان بچوں کے دل ودماغ میں اس کی محبت ڈال رہی ہے؟“۔….اصل بات یہ ہے اللہ جب کسی سے محبت کرتا ہے اس کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے اور جب کسی کو اس کے تکبر یا دیگر وجوہات کی بناءپر ناپسند کرنے لگتا ہے تو لوگ اُسے ایسی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کسی کونے میں وہ سکون نہیں پاتا۔ سنا ہے سابق حکمران خاندان اب لندن چھوڑ کر کسی اور شہر یا ملک میں شفٹ ہونے کا سوچ رہا ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اُن پر آوازے ہی کسے جائیں گے۔ جب تک سچے دل سے وہ توبہ نہیں کرتے اور ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ، وہ اور ان کے حواری وجواری اکثر فرمایا کرتے تھے ” عمران خان کے ہاتھوں میں اقتدار کی لکیر نہیں ہے“۔….اب وہ بار بار اپنے ہاتھ دیکھتے اور ملتے ہوں گے اور یہ سوچتے ہوں گے ہمارے ہاتھوں میں اقتدار کی جو اِک لکیر ہوا کرتی تھی، کہاں گئی ؟؟؟رہے نام اللہ کا!(ش۔ز۔م)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.