رﺅف کلاسرا نے عمران خان کی ’ ناک میں دم‘ کردیا، صحافیوں سے ملاقات میں وزیراعظم نے سینئر تجزیہ کار کے بارے میں کیا کہا؟ جان کر پی ٹی آئی کارکنوں کی بھی ہنسی نکل جائے گی
سینئر صحافی و تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی عمران خان سے 2 روز قبل ہونے والی ملاقات میں رﺅف کلاسرا کا بھی تذکرہ ہوا۔
روزنامہ جنگ میں لکھے گئے اپنے کالم میں ارشاد بھٹی نے عمران خان سے ہونے والی ملاقات کا احوال تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ” ایک معاملے پر جب عمران خان یہ بتانے لگے کہ ”پچھلی حکومت نے یہ کیا، پچھلوں نے وہ کر دیا“ تو میں نے بات کاٹی ’سر یہ ہم بیسیوں بار سن چکے، انہی کرتوتوں پر پچھلے گھر جا چکے، اب آگے بڑھیں“ یہ سن کر عمران خان بولے ”میں اپنی بات مکمل کر لوں“ میں نے کہا ”سر! جو کچھ آپ بتانا چاہ رہے، وہ آپ سے سن سن کر ہم
نے رٹ لیا، اب حل بتائیں“ وزیراعظم نے قدرے تلخ لہجے میں کہا ”میری بات تو سن لو“ میں نے کہا ”سر! آپ اس پر کیوں نہیں بات کرتے کہ کل جس ناصر درانی کے ذکر بنا آپ کی کوئی تقریر مکمل نہیں ہوتی تھی، آج وہ مستعفی ہوئے، تو آپ نے پلٹ کر خبر بھی نہ لی، کل اسد عمر جس اسحاق ڈار کے کھاتے میں ہر برائی ڈال رہے تھے، آج اسی اسحاق ڈار کی تعریفیں کر رہے، کل تک ن لیگ کی فنانس ٹیم بری تھی، آج جہانزیب خان، طارق باجوہ، شاہد محمود سمیت ساری ٹیم ن لیگ کی“۔
اس بار عمران خان نے میری بات کاٹی ”پھر تم بھی رﺅف کلاسرا کی طرح بتا دو، مجھے کن بندوں کو کہاں لگانا ہے“۔ میں نے اِردگرد دیکھ کر کہا ”اچھا اسی وجہ سے آج رﺅف کلاسرا یہاں نہیں، مطلب اگلی واری میں وی نئیں“ عمران خان سمیت سب ہنس پڑے، اس کے بعد ایک دو بار وزیراعظم نے رﺅف کلاسرا کا ذکر یوں بھی کیا کہ ایک بندہ لگاﺅ تو اس کیخلاف چارج شیٹ، دوسرا لگاﺅ تو اس کے خلاف لمبی لسٹ، ہم کیا کریں، پھر مجھے مخاطب کر کے بولے ”تم دیکھ لینا چھ ماہ بعد
پاکستان میں حالات بدل چکے ہوں گے، یہاں ڈالر ہی ڈالر ہوں گے“ میں نے کہا ”چلو آپ کو چھ ماہ دے دیے لیکن آپ پرفارم نہ کر سکے تو پھر واقعی رﺅف کلاسرا سے درخواست کرنا پڑے گی“ وزیراعظم ہنس کر بولے ”کیا خیال ہے،میں رﺅف کو اپنا ایڈوائزر نہ رکھ لوں“ ایک دوست نے لقمہ دیا ”سر کہیں کلاسرا صاحب یہ نہ کہہ دیں خان صاحب کو کہیں وہ میرے ایڈوائزر بن جائیں“ ایک قہقہہ لگا اور یوں تلخ، کڑوے کسیلے سوالوں کے جواب انتہائی صبر سے دینے اور مسائل و مصائب میں گھرے مگر پرعزم وزیراعظم کے ساتھ ہماری یہ دوسری ملاقات اختتام پذیر ہوئی“۔