’وزیراعظم عمران خان ان دنوں شدید دباؤ اور ٹینشن میں ہیں کیونکہ ۔ ۔ ۔‘ مقامی اخبار ایسی وجہ سامنے لے آیا کہ جان کر تحریک انصاف کے کارکنان بھی دنگ رہ جائیں
وزیراعظم عمران خان کو سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے زبردست دبائو کا سامنا ہے کیونکہ وہ روٹیشن پالیسی، جسے بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی بھی کہا جاتا ہے، میں آنکھ کا تارا سمجھے جانے والے ایسے سرکاری ملازمین کیلئے استثنیٰ چاہتے ہیں جو اپنی پسند کے علاقوں میں تعیناتی چاہتے ہیں۔
سینئر تحقیقاتی صحافی انصار عباسی نے جنگ میڈیا گروپ کے لیے لکھا کہ وزیراعظم کے قریبی ساتھی نے بتایا ہے کہ جو لوگ وزیراعظم پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ با اثر بیوروکریٹس کے فائدے کیلئے پالیسی کو نظرانداز کر دیں ان میں پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم آفس کے ذریعے کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو آئندہ چند روز میں کسی بھی وقت طلب کر سکتے ہیں تاکہ چند ٹرانسفر آرڈرز کو منسوخ کرایا جائے، یہ آرڈرز جاری تو ہو چکے ہیں لیکن با اثر بیوروکریٹس نے ان پر تعمیل نہیں کی۔ بیوروکریسی کے ذرائع کو خدشہ ہے کہ اگر عمران خان با اثر بیوروکریٹس کے دبائو میں آ گئے تو پی ٹی آئی کی حکومت کی جانبسے سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا وعدہ کبھی وفا نہیں ہو پائے گا۔ حکومت سنبھالنے کے دو ہفتوں بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے سرکاری ملازمین کی روٹیشن پالیسی میں ترمیم کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عمل کرایا جائے اور کسی کو استثنیٰ نہ دیا جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے پالیسی میں نئی شق کی ترمیم کی تھی کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس / پولیس سروس پاکستان (پی اے ایس / پی ایس پی) کے گریڈ 21؍ اور اس سے کم کے ایسے افسران جنہوں نے کسی بھی صوبائی یا وفاقی حکومت میں مستقل 10؍ سال تک کام کیا ہو اسے عوامی مفاد میں وفاقی حکومت یا کسی دوسرے صوبے میں ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔ ای او یل / ارنڈ لیو / اسٹڈی لیو / او ایس ڈی / ٹریننگ / ڈیپوٹیشن / غیر ملکی پوسٹنگ کے عرصہ کو 10؍ سال کی مستقل ملازمت کے تعین کے عرصے میں شمار نہیں کیا جائے گا اور اسے بریک نہیں سمجھا جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے گریڈ 20؍ اور 21؍ کے کئی سینئر پی اے ایس افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں صوبوں اور وفاق میں ٹرانسفر کیا۔ ان میں سے کئی افسران نے اپنی نئی پوسٹنگ کا چارج سنبھال لیا ہے لیکن کئی ایسے افسران بھی ہیں جنہیں ابھی جوائن کرنا ہے۔ ایسے افسران ہیں جنہوں نے صوبائی حکومتوں، سینئر بیورو کریٹس، سیاست دانوں اور با اثر حلقوں کے ذریعے وزیراعظم پر حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر بھی دبائو ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ انہیں روٹیشن پالیسی میں استثنیٰ دیا جائے۔ اگر روٹیشن پالیسی میں استثنیٰ کیلئے ڈالا جانے والا یہ دبائو کامیاب ہو گیا تو ذرائع نے متنبہ کیا ہے کہ اس سے پالیسی زوال کا شکار ہو جائے گی جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
کئی برسوں بعد عمران خان کی حکومت نے صوبوں اور وفاق کے درمیان پی اے ایس اور پی ایس پی گروپ کے با اثر بیوروکریٹس کے تبادلوں کی جرأت دکھائی، اس دوران یہ خدشات بھی تھے کہ عمران خان اپنے اس فیصلے پر عمل کر پائیں گے یا نہیں۔ لیکن تبادلوں کے دوسرے مرحلے، جس میں پی ایس پی گروپ کے افسران کو ٹرانسفر کیا جا رہا ہے، میں ہی عمران خان کی حکومت با اثر بیوروکریٹس کیلئے استثنیٰ دینے کے دبائو کا شکار ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں، ہر حکومت پی اے ایس (سابقہ ڈی ایم جی) اور پی ایس پی گروپ کے افسران کیلئے اپنی متعلقہ روٹیشن پالیسی تشکیل دیتی رہی ہے، جسے بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی بھی کہا جاتا ہے، لیکن جنرل (ر) پرویز
مشرف اور ان کے مارشل لا کے دور میں بھی اس پالیسی پر عمل نہ ہو سکا۔ ماضی میں، ہر مرتبہ، پالیسی متعارف کرائے جانے کے ابتدائی ہفتوں میں ہی با اثر بیوروکریٹس کی جانب سے انہیں استثنیٰ دینے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو جاتی تھی کیونکہ یہ افسران اپنی پسند کے صوبوں کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ حال ہی میں اس موضوع پر دی نیوز نے خبر شائع کی تھی جس میں ایک سینئر بیوروکریٹ کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ روٹیشن پالیسی متعارف کرکے عمران خان کی حکومت نے خود کو ایک امتحان میں ڈال دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں میں طے ہو جائے گا کہ عمران خان ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ہیں یا بیوروکریسی اور
ان کے طاقتور تعلقات کے دبائو میں آ جائیں گے۔گزشتہ چند دہائیوں سے خوابیدہ رہنے والی بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی قومی یکجہتی کیلئے بھی اہم سمجھی جاتی ہے کیونکہ ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے افسران کو دوسرے صوبوں میں خدمات انجام دینے کیلئے مقرر کیا جاتا ہے جس سے ایسی قومی پالیسیاں تشکیل دینے میں مدد ملتی ہے جن میں تمام صوبوں اور علاقوں کے عوام کی خواہشات اور ضروریات کی عکاسی ہوتی ہے۔
گزشتہ دس سال میں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے صوبوں اور وفاق کے درمیان سرکاری ملازمین کا تبادلہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تاہم، پرویز مشرف حکومت اور 90ء کی دہائی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو حکومت نے روٹیشن پالیسی تشکیل دی لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی ہی تشکیل دی جانے والی پالیسی پر عملدرآمد نہ کرا سکا کیونکہ بیوروکریٹس بہت طاقتور تھے اور کسی نہ کسی بہانے سے انہیں استثنیٰ مل جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں بھی ہر آنے والی حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ
پالیسی پر من و عن عمل کیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ نتیجتاً پالیسی داخل دفتر ہوگئی۔ پی اے ایس اور پی ایس پی تمام پاکستان سروسز میں شامل ہیں اور ان کی کیڈر پوسٹس وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم ہوتی ہیں۔ تاہم، اکثر معاملات میں ان سروسز سے تعلق رکھنے والے افسران اپنے ہی صوبوں اور علاقوں میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دیگر صوبوں میں کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بیوروکریٹس اس رجحان پر، خصوصاً پنجاب میں، سختی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔