شدت پسندی اور دہشت گردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں، پیغمبرﷺکی توہین مسلمانوں کیلیے بہت بڑ ا مسئلہ ،اقوام عالم اس کا حل نکالے:وزیر اعظم عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا خطرناک رفتار سے بڑھا ہے، دہشت گردی کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے،مغربی لوگوں کوسمجھ نہیں آتا کہ پیغمبرﷺکی توہین مسلمانوں کیلیے بہت بڑ ا مسئلہ ہے،جب اسلام کی توہین پرمسلمانوں کاردعمل سامنے آتا ہے تو ہمیں انتہا پسند کہہ دیا جاتا ہے,مسلم لیڈرز نے ماضی میں اسلامو فوبیا کے بارے میں بات نہیں کی.

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے یو این جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی مذہب شدت پسندی اور دہشت گردی کا سبق نہیں دیتا ہے، تمام مذاہب کی بنیاد انصاف پر ہے،نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا خطرناک رفتار سے بڑھا،اسلاموفوبیا مسلم ممالک اور مسلمانوں میں تکلیف کا سبب ہے،کوئی بھی شخص کیسے فیصلہ کرسکتا ہے کہ انتہاپسند اور معتدل مسلمان کون ہے؟اسلام وہی ہے جو حضوراکرمﷺ نے بتایا، انتہاپسند اسلام جیسی کوئی چیز نہیں،کچھ مغربی ممالک کے سربراہوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا، اس لیے اسلامو فوبیا بڑھا،نائن الیون سے پہلے تامل ٹائیگر خودکش حملے کرتے رہے، تامل ٹائیگر ہندو تھے لیکن

خودکش حملوں کا تعلق مذہب سے نہیں جوڑا گیا، حجاب کرنے والی مسلم خواتین کو کئی ممالک میں مسئلہ بنا دیا گیا، مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور اس سے انتہاپسندی بڑھتی ہے،اقوام عالم کو اب اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے، یورپ اور مغربی ممالک میں لاکھوں مسلمان اقلیت کے طور پر رہتے ہیں، مغرب میں حجاب کو ہتھیار سمجھا جاتا ہے، اسلامو فوبیا اس لیے ہوا کہ کچھ مغربی رہنماؤں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا،افسوس کی بات ہے مسلم ملکوں

کےسربراہوں نے اس پر توجہ نہیں دی،مسلم لیڈرز نے ماضی میں اسلامو فوبیا کے بارے میں بات نہیں کی،ماضی میں پاکستان کی حکومت نے روشن خیال اسلام کی اصطلاح استعمال کی۔انہوں نے کہا کہ مغرب میں بہت وقت گزارا جانتا ہوں وہ کیسے سوچتے ہیں؟مغربی لباس پہننے اور انگلش بولنے والے مسلمانوں کو معتدل سمجھا جاتا ہے،مغرب میں مذہب کو بہت مختلف نظر سے دیکھا جاتا ہے،مغرب میں سوچا گیا کہ اسلام آزادی اظہار کی اجازت نہیں دیتا، مغرب میں اسلام کے بارے میں عجیب چیزیں سنیں، کہاں گیا کہ اسلام خواتین کی آزادی کے خلاف ہے، مغرب میں مخصوص طبقات جان بوجھ کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں،حضور اکرم

ﷺ کی زندگی قرآن پاک کے مطابق گزری،حضور اکرم ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لیے مثال ہے، ریاست مدینہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی،اسلام میں کہا گیا کہ تمام افراد برابر ہیں، حضور اکرمﷺ نے کہا کہ سب سے اچھا کام غلام کو آزاد کرنا ہے، اس وقت معیشت کا انحصار غلامی پر تھا، اس لیے غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا، ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام اقلیتوں کے خلاف ہے،اسلام بتاتا ہے کہ ہر شخص قانون کی نظر میں برابر ہے چاہے اس کا مذہب کوئی

بھی ہو، جب مسلم ریاست اقلیتوں کیخلاف جاتی ہے تو وہ اسلام کے خلاف جاتی ہے، پیغمبر محمدﷺ مسلمانوں کے دل میں رہتے ہیں، حضوراکرمﷺ کی توہین ہوتی ہے تو مسلمانوں کا ردعمل آتا ہے،دل کا درد جسم کے درد سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، ہولوکاسٹ یہودیوں کے لیے ایک حساس مسئلہ ہے،جب اسلام کی توہین پرمسلمانوں کاردعمل سامنے آتا ہے تو ہمیں انتہا پسند کہہ دیا جاتا ہے،اقوام عالم کو اب اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.