مسلمان نوجوانوں پر ڈورے ڈالنے کی شوقین اندرا گاندھی کی جوانی کے وہ واقعات جنکی گونج آج بھی بھارت کے گلی کوچوں میں سنائی دیتی ہے

بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بننے سے پہلے پورے ہندوستان کے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکی تھیں۔انکے معاشقوں پر بعد ازاں کئی طرح کے غیر اخلاقی مضامین بھی لکھے گئے اور کتابوں میں بھی ان کی جوانی کے قصوں کا چرچا کیا گیا ہے ۔

ہندوستان کی تقسیم سے پہلے اندرا گاندھی کے باڈی گارڈ پریم نارائن جو کہ ایک گریجویٹ تھا ،نے اندرا گاندھی کی جوانی کے معاشقوں اور بے راہ روی کے قصوں کو ایک کتاب میں قلم بند کردیا تھا جس کے جرم میں وہ جیل میں ایڑھیاں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر گمنامی کی موت مرگیا تھا ۔پریم نارائن نے ’’ جب اندرا جوان تھی ‘‘ میں دوران ڈیوٹی اندرا گاندھی کے روزمرہ واقعات اور جنسی معاملات پر انکی فوٹو بھی بنائیں اور ریکارڈنگ بھی کی تھی جنہیں وہ سنبھال کر رکھتارہا ۔پریم نارائن کا دعویٰ تھا کہ اندرا گاندھی جنسی طور پر آوارہ مزاج تھی اور خوبصورت مردوں سے تعلقات

رکھتی تھی خاص طور پر مسلمان نوجوان اسکے حلقہ میں موجود رہتے تھے ۔وہ بیک وقت کئی مردوں سے تعلقات نبھاتی تھیں۔جبکہ تنہائی میسر نہ ہونے کے باوجود وہ اپنی ہوس پوری کرنے سے گریز نہیں کرتی تھی۔پریم نارائن نے پنڈت نہرو کی نومبر 1940 میں ہونے والی سالگرہ کا قصہ لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ سالگرہ کی رات اسے مہاتما گاندھی کے سب سے چھوٹے بیٹے دیوداس نے اندرا کے لئے ایک رقعہ اورسو روپیہ دیا تھا (مہاتما گاندھی کا سب سے چھوٹا بیٹادیوداس شادی شدہ تھا اور اسکی عمر اس وقت چالیس سال تھی،

یہ وہی بیٹا ہے جس نے پندرہ سالہ لڑکی سے شادی پر مہاتما گاندھی کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے ) پریم نارائن لکھتاہے کہ وہ رقعہ لیکر اندرا نہرو کو ڈھونڈتا ہوا جب دوسری منزل پر پہنچا تو اندرا ایک مقامی مسلمان تاجر راجہ افتخار علی خان کی کمر میں ہاتھ ڈالے مغربی موسیقی کی لے پر کمرے میں تھرک رہی تھی ۔نہ جانے یہ موسیقی کا تقاضا تھا یا باہمی بے تکلفی، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے تھے اور موسیقی کی ایک مخصوص آواز پر بوسہ بازی بھی ہورہی تھی۔ اندرا نے ایک نظر مجھے بھی دیکھا مگر محو رقص رہی۔ میں واپس بالکونی میں آگیا اور رقعہ کھول پڑھنے لگا لکھا تھا

’’اندرا ڈئیر

دائیں باغیچے میں کھڑا تمہارا انتظار کررہا ہوں۔ سر میں درد محسوس کررہا ہوں مگر الوداعی بوسہ لئے بغیر ٹلوں گا بھی نہیں‘‘

صرف تمارا

’’دیوداس‘‘

میں مسکرا اٹھا حیران بھی تھا کہ اکیلی اندرا ،اتنے چاہنے والے، بھگوان خیر کرے ،رقعہ ختم کیا ہی تھا کہ موسیقی کی آواز ختم ہوگئی۔ میں دوبارہ برآمدے میں آیا تو راجہ صاحب اندرا کے شانوں پر ہاتھ رکھے کمرے سے باہر نکل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر راجہ صاحب نے اپنا ہاتھ اٹھالیا اور اندرا سے اجازت لے کر نیچے اترگئے۔ اندرا میری طرف بڑھی ’’کیا بات ہے‘‘

’’مسٹر دیوداس دائیں باغیچے میں میرا انظار کررہے ہیں‘‘

’’باغیچے میں کیوں ‘‘

’’بھگوان جانے‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اندرا نہ جانے کیا بڑبڑائی ،واپس ہوگئی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔ میں دیوداس کے دئیے ہوئے رقعے کو اپنی جیب میں رکھتا ہوا واپس باغیچے میں آگیا اور مہندی کے باڑ کے دوسری طرف دبے پاؤں چلتا ہوں دیوداس کی بالکل پشت پر پہنچ گیا۔ دیوداس کلوپیٹرا کے درخت سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ چند لمحوں بعد اندرا برآمدے سے نیچے اتری باغیچے کے دروازے میں آکر ٹھہر گئی، پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر سیدھی دیوداس کے پاس آگئی۔ باغیچے کے اس کونے میں قدرے تاریکی تھی۔ اندرا آتے ہی دیوداس کی بانہوں میں جھول گئی۔

دیوداس کی آواز آئی ’’اندرا۔۔۔ آج تمہارا رویہ کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دیتا ہے‘‘نہیں ڈیئر۔ ایسی تو کوئی بات نہیں البتہ ذرا مصروفیت کی وجہ سے زیادہ توجہ نہ دے سکی۔ معذرت چاہتی ہوں‘‘۔ چند لمحے خاموشی کے بعد ایک بوسے کی چٹاک سنائی دی۔ پھر سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔ چند لمحوں بعد سرگوشیاں بھی بند ہوگئیں ‘‘ اندرا گاندھی کے باڈی گارڈ نے انکشاف کیا ہے کہ اندرا گاندھی نے اس رات دیوداس کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی حرکتیں کیں۔جس کا اس نے کتاب میں مفصل ذکر بھی کیا ہے کہ وہ کیسی حرکتیں کررہی تھی۔ (ن)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.