بچوں سے زیادتی کرکے لائیو ویڈیو بنانے والا انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ گرفتار
اولپنڈی پولیس نے تھانہ روات کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں سے زیادتی کی براہ راست ویڈیوز نشر کرنے والے بین الاقوامی ڈارک ویب کے سرغنہ کو گرفتار کرلیا۔
سی پی او راولپنڈی فیصل رانا نے بتایا کہ بچوں سے زیادتی کرکے لائیو ویڈیو چلانے والا انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ گرفتار کرلیا۔ ایک محنت کش کے بچے سے بدفعلی کی اطلاع پر اس کی گرفتاری عمل میں آئی اور دوران تفتیش ہولناک انکشافات سامنے آئے کہ وہ اس مکروہ کام کا عادی مجرم ہے اور بیرون ملک سزا بھی کاٹ چکا ہے۔
سرکاری کنسلٹینٹ
پولیس کے مطابق سہیل ایاز خیبر پختون خوا کے سول سیکرٹریٹ محکمہ منصوبہ بندی کو کنسلٹینسی دے رہا تھا اور حکومت سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے، وہ برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کرچکا ہے۔
درجنوں بچوں سے زیادتی
پولیس حکام کے مطابق مجرم سہیل پاکستان میں 30 بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کر چکا ہے، اگر زیادتی کاشکار بچوں کے والدین خوف یا بدنامی کے ڈر سے مقدمے میں مدعی نہ بنے تو پولیس ان وارداتوں کی مدعی بنے گی، مجرم سے بچوں کی برہنہ ویڈیوز اورتصاویر بر آمد کرنے کے لئے ایف آئی اے سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ اور اٹلی سے ڈی پورٹ
فیصل رانا نے بتایا کہ سہیل ایازعرف علی کو برطانوی حکومت نے ڈی پورٹ کیا تھا اور وہ بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کے جرم میں برطانوی جیل سے سزا کاٹ چکا ہے۔ اس نے برطانیہ میں بچوں کے تحفظ کے ادارے میں ملازمت کی اور وہاں یہ مکروہ دھندہ شروع کیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق مجرم سہیل اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں عدالتی مقدمہ بھگت چکا ہے اور اسے اٹلی سے بھی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا، پاکستان واپس آکر اس نے تھانہ روات کے علاقہ میں رہائش اختیار کی جہاں اس نے متعدد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ حال ہی میں قہوہ بیچنے والے محنت کش کے بچے سے بدفعلی اور ویڈیو بنانے کے بعد اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ
ایس پی صدر رائے مظہر اقبال نے بتایا کہ ملزم سہیل ایاز چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے جو انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے، اس کا تعلق اسلام آباد کے علاقے نیلور سے ہے۔
رشتے دار لاتعلق
اس کی بیوی 9 سال قبل اس کو چھوڑ کر چلی گئی تھی جبکہ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے اس کے والدین اور بہن بھائی بھی اس سے لاتعلق ہوگئے، تاہم انہوں نے پولیس کو اس قبیح فعل کی اطلاع دینا ضروری نہ سمجھا۔