’’بھارت میں جسم فروشی کیلئے نوعمر لڑکیوں کو جلد بالغ بنانے کیلئے یہ چیز دی جاتی ہے‘‘ قحبہ خانے پر چھاپے دوران پکڑی گئی لڑکی کا ایسا انکشاف کہ کسی کی بھی آنکھیں نم ہوجائیں
نیپال میں انسانی سمگلِنگ کا شکار ہونے والی لڑکیوں نے بتایا ہے کہ انہیں جلدی جوان کرنے اور جنسی کاروبار میں ڈالنے کے لیے ہارمونز کے انجکشن دیے جاتے تھے۔
بی بی سی کے مطابق آٹھ سال کی عمر میں سمگل کرکے انڈیا جانے والی ایک نیپالی لڑکی نے بتایا کہ مجھے ہر روز لال دوا دی جاتی تھی اور ہر بار وہ دوا کھانے کے بعد میں الٹی کرتی تھی۔ مجھے وہ دوا بالکل پسند نہیں تھی لیکن مجھے زبردستی وہ دوا دی جاتی اور اگر میں انکار کرتی تھی تو میرے ساتھ مار پیٹ کی جاتی تھی، وہ کہتے تھے کہ دوا کھانے سے میں جلدی بڑی ہو جاؤں گی اور جلدی گھر واپس جا پاؤں گی۔
اس بچی کا تعلق شمالی نیپال کے ایک خاندان سے ہے اور یہ آٹھ بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ ایک عورت نے اس کے گھروالوں سے کہا کہ وہ ان کی بچی کو اچھی تعلیم دلوائے گی اور گھر والے اس عورت کے جھانسے میں آکر بچی کو اس کے ساتھ کٹھمنڈو بھیجنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن کٹھمنڈو میں وہ کچھ ہی عرصے رہی اور اسے ایک نیپالی خاندان کے ساتھ دلی بھیج دیا گیا۔ جہاں اس بچی سے گپر کا کام کاج کروایا جاتا تھا۔ دو سال تک اسے کسی اور شہر بھیج دیا گیا۔
بچی کا کہنا تھا کہ وہاں بھی وہ ایک نیپالی خاندان کے ساتھ دو سال رہی، یہاں وہ مجھے گندی دوائی کھلاتے تھے اور پھر مجھے بُری جگہ بھیج دیا گیا میں وہاں سب سے چھوٹی بچی تھی، اس نے اپنے مالکوں سے التجا کی کہ اسے وہاں نہ بھیجا جائے لیکن ان کا کہنا تھا کہ جو پیسہ مجھے خریدنے اور پالنے میں خرچ ہوا ہے انہیں وہ واپس چاہیے۔ بچی کا کہنا تھا کہ میری قسمت اچھی تھی کہ وہاں پولیس کا چھاپا پڑ گیا اور چھ مہینے بعد ہی میں اس گندی جگہ سے آزاد ہو گئی۔
انسانی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی نیپالی تنظیم موتی نیپال کے ڈائریکٹر بشورم کھڑکا کہتے ہیں سمگلر اب کم سن بچیوں کو لیجا رہے ہیں کیونکہ جوان لڑکیاں آسانی سے پہچان لی جاتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی نظر بڑی لڑکیوں پر رہتی ہے جبکہ بچیوں کو وہ اپنا بتا کر آسانی سے نکل جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب کسی نو سے بارہ سال کی بچی کو گروتھ ہارمون دیے جاتے ہیں تو ان کی چھاتی اور کولہے بڑے ہو جاتے ہیں اور وہ جوان لگنے لگتی ہیں۔ اکٹر ارونا پریتی کہتی ہیں کہ ان ہارمونز ادویات کے سبب ان لڑکیوں کو زندگی بھر صحت کے مسائل کا سامنا رہے گا۔