”قتل ہمارے ملک میں ہوا اس لیے ہم ۔۔۔“جمال خاشقجی کے قتل پر ترک صدر کیا کرنے والے ہیں ؟ ایسا اعلان کردیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی

ترک صدر رجب طیب اردگان نے خاشقجی کے قتل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ل ہمارے ملک میں ہوا،اس لیے ہم پرتحقیقات کی ذمہ داری ہے اور ہم حقیقت کاپتہ چلاکررہیں گے ،ہمیں کوئی روک نہیں سکتا، خاشقجی کے قتل میں ملوث اٹھارہ افراد کے خلاف ترکی میں مقدمہ چلنا چاہئے اور ہم نے سعودی عرب سے ان افراد کی شناخت ظاہر کرنے کامطالبہ کیاہے ۔

پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہناتھا کہ ترکی کے پاس جمال خاشقجی کے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے شواہد ہیں اور قتل کا الزام انٹیلی جنسی ایجنسیوں کے لوگوں پر لگانے سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔رجب طیب اردوان نے مزید کہا کہ ہماری پولیس اور انٹیلی جنسی ایجنسی اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے، سعودی قونصلیٹ ترک سرزمین پر ہے اور جنیوا کنونشن کسی کو سفارتی استثنیٰ فراہم نہیں کرتا، معاملے اب آگے بڑھ گیا ہے، خاشقجی کا قتل بین الاقوامی معاملہ ہے اس کا بین الاقوامی سطح پر قتل کا نوٹس لیا گیا، مشترکہ ورکنگ گروپ اس معاملے پر بات کررہا ہے، سفارتی استثنیٰ کے باوجود قتل کی تحقیقات ہماری ذمہ داری ہے۔

ترک صدر نے سوال کیا کہ پندرہ رکنی سعودی ٹیم ترکی میں کیا کررہی تھی؟ ٹیم کس کے حکم پر ترکی آئی تھی؟ سعودی قونصلیٹ نے فوری طور پر قتل کی تفتیش شروع کیوں نہ کی؟ خاشقجی کی لاش کو ٹھکانے والا مقامی سہولت کار کون تھا؟ترک صدر کا کہناتھا کہ میری 14 اکتوبر کو شاہ سلمان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس دوران انہیں خاشقجی کے قتل سے متعلق تمام معاملات سے آ گاہ کیا اور انہیں بتایا کہ سعودی وفد کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کرنے پر بھی اتفاق ہواہے ۔

اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہاہے کہ جمال خاشقجی گی کے قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی کی گئی اور یقین ہے کہ یہ ساری منصوبہ بندی سعودی قونصل خانے میں ہوئی ۔انہوں نے بتایا کہ کلنگ اسکواڈکمرشل اورخصوصی پروازوں کے ذریعے پہنچا اور خاشقجی کے قتل میں دو ٹیمیں ملوث ہیں، مجموعی طورپر 15 افرادکی ٹیم استنبول آئی ، سعودی قونصل خانے کے حکام نے قتل سے پہلے سیکیورٹی کیمرے ہٹادیئے۔خشوگی دو اکتوبر کو شادی کے دستاویزات سے متعلق کام سے قونصل خانے میں گئے تاہم کیمرے کی فوٹیج سے معلوم ہواہے کہ وہ واپس نہیں آئے جبکہ اسی روز سعودی قونصل خانے کا اہلکار خاشقجی کا روپ دھار کر ایمبیسی سے باہر آ یا ۔

ترک صدر کا کہناتھا کہ قتل سے متعلق سوال پوچھنے کاحق محفوظ رکھتے ہیں، سفارتی استثنیٰ کے باعث ہم عمارت کے اندرنہیں جاسکے، قتل ہمارے ملک میں ہوا،اس لیے ہم پرتحقیقات کی ذمہ داری ہے اور ہم حقیقت کاپتہ چلاکررہیں گے اور ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔ ان کا کہناتھا کہ عالمی قوانین ایسے جرائم کی ہرگزاجازت نہیں دیتے،ذمہ داروں کوانصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اورذمہ داروں کوقرارواقعی سزا دی جائےگی۔ ترک صدر کا کہناتھا کہ اب تک ملنے والے شواہد کے مطابق خشوگی کوبہیمانہ طریقے سے قتل کیاگیا، ابھی تک خشوگی کی لاش حوالے کیوں نہیں کی گئی، سعودی عرب سے ذمہ داروں کے نام سامنے لانے کاکہاہے، خشوگی کی لاش کہاں ہے؟بیانات تضادات پرمبنی کیوں تھے؟۔ ترک صدر نے کہا کہ واضح کرچکے ہیں اس قتل پرخاموش نہیں رہیں گے، ترک اتھارتی قتل کے معاملے پرسفارتی کارروائی کررہی ہے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.