چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کی سیکورٹی پرتعینات اہلکاروں کا نیا امتحان شروع – اب وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں؟

آسیہ کیس کے فیصلہ کے بعد سکیورٹی خدشات، چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر ججز کی سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کی سکریننگ کا عمل شروع ہو گیا، سپریم کورٹ کے ججز، ان کے گھروں اور عدالتی حدود میں سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کو سوالنامے دے دیئے گئے ہیں اور سکیورٹی اہلکاروں کے تفصیلی انٹرویوز بھی 6 نومبر سے جاری ہیں۔

روزنامہ نوائے وقت کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کو دیے جانے والے سوالناموں میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی پالیسی مغربی ممالک کے دبائو کا شکار ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں رائے اور ملکی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار آپ کس کو سمجھتے ہیں؟ نماز عموماً کہاں اور کس جگہ ادا کرتے ہیں؟ لال مسجد اور اس کی انتظامیہ کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ کس اسلامی فرقے کو آپ اسلام کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں؟ کیا دہشت گردوں کی ’سزائے موت‘ کا فیصلہ درست ہے؟ کونسا نظام تعلیم بہتر ہے؟ مدرسہ یا سکول؟ قرآن مجید پڑھا یا حفظ کیا ہے اگر حفظ کیا ہے تو کون سے مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں؟

ججز سکواڈ اور سپریم کورٹ حدود میں تعینات اہلکاروں سے پوچھے جانے والے سوالات میں ڈیوٹی سے متعلق بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا وہ موجودہ ڈیوٹی سے مطمئن ہیں اگر نہیں تو انہیں محکمانہ مسائل کون سے درپیش ہیں؟ سکیورٹی اہلکاروں سے انکی ڈیوٹی کے لیے پسندیدہ تعیناتی ڈویڑن سے متعلق بھی پوچھا گیا کہ وہ آپریشن، سکیورٹی، ٹریفک یا لاجسٹک ڈویڑن میں سے کونسی جگہ پر ڈیوٹی کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں؟

ڈی آئی جی سکیورٹی وقار چوہان کی سربراہی میں کمیٹی سپریم کورٹ میں ہی انٹرویو کر رہی ہے، کمیٹی میں ایس ایس پی، ایس پی سپریم کورٹ، ڈی ایس پی سپریم کورٹ، ڈی ایس پی سکیورٹی، اے آئی جی سپیشل برانچ اور دو ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ اخباری ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ ڈیوٹی پر تعینات 242 سکیورٹی اہلکاروں میں سے 40 کے قریب سکیورٹی اہلکاروں کے انٹرویوز مکمل کر لیے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سب سے پہلے ججز سکواڈ کی سکروٹنی کی جارہی ہے، اور بعدازاں ججز کے گھروں اور سپریم کورٹ کی حدود میں تعینات تمام اہلکاروں کی بھی سکریننگ کی جائے گی، یاد رہے آسیہ مسیح کی بربریت کے فیصلے کے بعد مذہبی جماعتوں کی طرف سے فیصلہ دینے والے ججز کے خلاف فتویٰ دیا گیا تھا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.