’میرے کفیل کی بیگم مجھے مارتی تھی، اور جب مار مار کر وہ تھک جاتی تو پھر گھر والے۔۔۔‘ نوکری کے لئے سعودی عرب جانے والی خاتون نے اپنی ایسی کہانی سنادی کہ جان کر آپ کے بھی آنسو نہ رکیں گے

غریب ممالک کے مردوں کی طرح خواتین بھی بڑی تعداد میں روزگار کے حصول کے لئے خلیجی ممالک کا رخ کر رہی ہیں لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ان کا حال غریب الوطن مردوں سے بڑھ کر دردناک ہے۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ بعض ممالک کے سفارتخانوں نے تو اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر لئے ہیں جہاں ظلم و تشدد کے باعث گھروں سے فرار ہونے والی خادماﺅں کو پناہ دی

جاتی ہے۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ خالدہ اختر نے بھی کئی ماہ سعودی عرب میں بنگلہ دیشی حکومت کے تحت چلنے والے ایک محفوظ ٹھکانے میں گزارے ہیں اور وہ خوش قسمت ہے کہ زندہ سلامت اپنے وطن واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق خالدہ اختر جب بنگلہ دیش کے شاہ جلال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اتری تو اس کی آنکھیں آنسوﺅں سے تر تھیں۔ یہاں سے اسے 250 کلومیٹر کی دوری پر واقع راج شاہی ڈسٹرکٹ جانا تھا، جہاں اس کا گھر ہے جسے وہ اچھی زندگی کی تلاش میں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئی تھی۔ گئی تو آسودہ زندگی کا خواب لے کر تھی لیکن زخموں سے بھرے جسم اور بھیانک یادوں کے ساتھ واپس آئی ہے۔

اپنے کفیل کے گھر میں اس مجبور خاتون پر جو بیتی اس کا احوال سناتے ہوئے اس نے بتایا کہ ” اس گھر میں مجھے بہت تشدد سہنا پڑا۔ میرے ساتھ یہ سلوک ہر روز ہوتا تھا۔ میرے کفیل کی بیگم مجھے مارتی تھی اور جب مار مار کر تھک جاتی تھی تو گھر کا کوئی دوسرا فرد مجھ پر تشدد شروع کر دیتا تھا۔ انہوں نے مجھے جلانے کی بھی کوشش کی، ایک بار نہیں بلکہ دو بار۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ میرے ساتھ یہ سلوک ہوگا تو میں کبھی وہاں نہ جاتی۔“

دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیشی خواتین بھی گھریلو خادماﺅں کے طور پر کام کرنے کے لئے سعودی عرب جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ان خواتین کو کفیلوں کے ہاتھوں بدترین سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے مملکت کے مختلف حصوں میں محفوظ ٹھکانے قائم کئے ہیں جہاں گھروں سے بھاگنے والی خادماﺅں کو تحفظ دیا جاتا ہے اور بنگلہ دیش واپس بھیجنے تک وہیں رکھا جاتا ہے۔ کئی ماہ تک کفیل کے گھر میں بدسلوکی کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر خالدہ کو بھی بنگلہ دیشی حکومت کے محفوظ ٹھکانے میں پناہ لینا پڑی۔ وہ اسے بھی اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہے کہ فرار ہو کر محفوظ ٹھکانے تک پہنچ پائی اور بالآخر زندہ سلامت اپنے دو بچوں کے پاس واپس بنگلا دیش پہنچ گئی۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.