پاکستان کاوہ سابق جنرل جس نے بھارت کی پوری بریگیڈ کو مار کر چوکی واپس چھین لی تھی ؟ کشمیر کو آزاد کرانے کا جزبہ رکھنے والا یہ بہادر جرنیل کون تھا؟ جب بھی نواز شریف یا بینظر کے آگے منصوبہ رکھتا تو کیا جواب ملتا؟
پاکستانی فوج نے بھارتی جارحیت کے جواب میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے ماضی میں کئی طرح کے آپریشن تیار کئے لیکن سیاسی قیادت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے ہر منصوبہ کو رد بھی کیااور فوج کی پشت بھی خالی کردی ۔میاں نواز شریف کے دور میں جب کارگل کے محاذ کو گرم کرکے بھارت کو سیاچن اور لداخ وکارگل سے دور کیا گیاتو اس کے پس پردہ بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو کمزور کرنامقصود تھا ۔اگرچہ میاں نواز شریف اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ فوج نے انہیں کارگل آپریشن پر اعتماد میں نہیں لیا تھا لیکن دوسری جانب اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ کارگل آپریشن میں انکی رضامندی شامل تھی۔
کارگل آپریشن کو جنرل پرویز مشرف کا جنون اور فتور بھی کہا گیا ہے لیکن اکثریت اس بات سے واقف نہیں کہ جنرل مشرف کارگل کے محاذ سے مقبوضہ کشمیرکو آزاد کرانا چاہتے تھے ۔اس سے بڑی بات یہ تھی کہ فوج سیاچن کا بدلہ بھی لینا چاہتی تھی۔جنرل مشرف کارگل آپریشن کا خواب اور منصوبہ اس وقت سے تیار کررہے تھے جب وہ بریگیڈئر تھے ۔جنرل ضیا الحق نے خاص طور پر انہیں سیاچن میں تعینات کیا تھا جہاں وہ کمانڈوز کی بٹالین کے کمانڈر بن کر گئے ۔جنرل مشرف کا پہاڑی جنگوں میں گہرا تجربہ تھا جس کی وجہ سے جنرل ضیا الحق نے بریگیڈئر پرویز مشرف کو سیاچن پر بھیجا۔1987 میں پرویز مشرف نے ’’ قائد ‘‘ نامی اہم ترین پوسٹ انڈین آرمی سے واپس
چھین لی تھی۔اس معرکہ میں پوسٹ پر موجود پوری انڈین بریگیڈ ماری گئی تھی ۔یہ پوسٹ پاکستان کی تھی جس کو بھارتی فوج نے انتہائی مکاری سے حاصل کیا تھا ۔ 1989/88 میں جب بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو بریگیڈئر پرویز مشرف نے کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کارگل منصوبہ پیش کیا تھا جسے بے نظیر بھٹو نے رد کردیا تھا ۔لیکن 1999 ء میں آرمی چیف بننے کے بعد جنرل مشرف نے یہی
منصوبہ میاں نواز شریف کے سامنے رکھا اور اسکی انہیں سات بار بریفنگ بھی دی تھی جسے میاں نواز شریف جھٹلاتے رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک بڑا طبقہ ابھی تک پاک فوج کے کارگل آپریشن پراسے تنقید کا نشانہ بناتا ہے اوربھارتی فوج کی اس بد عہدی اور عیاری کو یاد نہیں کرتا کہ بھارتی فوج نے سیاچن پر پاک فوج سے غیر تحریری معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی ۔سردیوں میں دونوں ملکوں کی افواج سیاچن کی بلند ترین پوسٹوں کو خالی کرکے نیچے اتر آتی تھیں لیکن 1984 میں بھارتی فوج نے پاک فوج کی خالی کردہ پوسٹوں پر قبضہ کرلیا اور موسم بدلنے پر جب پاک فوج اپنی پوسٹوں پر واپس جانے لگی تو بھارتی فوج نے ان کو نشانہ بنایا جس میں کئی فوجی جوان و افسر شہید ہوئے۔ بھارتی فوج نے پاک فوج کی بلند ترین پوسٹ ’’قائد ‘‘ پر قبضہ کرنے کے لئے1987ء میں ’’ آپریشن راجیو‘‘ کا منصوبہ بنایا جس نے میجر وریندر سنگھ کی قیادت میں تین بار بھرپور قائد پوسٹ پر حملہ کیا اور اس منصوبے میں بھارتی فوج کا لیفٹینٹ راجیو مارا
گیا ۔بھارتی فوج کو جب اس آپریشن میں ناکامی ہوئی تو چوتھی بار نائب صوبے داربانا سنگھ نے حملہ کرکے قائد پوسٹ پر قبضہ کرلیا۔جس کے بعد بھارتی فوج نے قائد پوسٹ کا نام ’’بانا ٹاپ‘‘ رکھ دیا اور نائب صوبے دار بانا سنگھ کو اسکی بہادری پر بھارت کا سب سے بڑا ملٹری ایوارڈ پرم ویر چکرا دیا گیا ۔بھارتی فوج کی پاکستان کی پوسٹوں پر قبضہ کی یہ داستان بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش کی ہے تاکہ ہر پاکستانی کو معلوم ہوجائے کہ بھارت نے جس پوسٹ پر قبضہ کیا تھا اسکو بھارتی فوج سے چھیننے کے لئے جنرل ضیا الحق نے بریگیڈئر پرویز مشرف کو وہاں بھیجا تھاجنہوں نے کمانڈوز کے ساتھ قائد پوسٹ کا قبضہ لیکر پوری انڈین بٹالین کو جہنم واصل کیا تھا ۔بھارتی فوج کی
سیاچن پر بڑھتی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے لداخ لیہہ کارگل پر پاکستان کی فوج کا تسلط لازمی تھا تاکہ بھارتی مہم جوئی اور سیاچن سے کشمیر تک کا علاقہ پاکستان سے الگ کرنے کے لئے اسکو کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس وقت کے بریگیڈئر پرویز مشرف کو جب بے نظیر بھٹو نے آپریشن کی اجازت نہیں دی تو آرمی چیف بننے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بھارتی فوج کی طرز پر ہی کارگل آپریشن تیار کیا تھا ۔اور ٹائیگر ہلز کے اہم ترین علاقہ اور پوسٹوں پر قبضہ کرکے بھارتی فوج کی سیاچن کی جانب نقل و حرکت کو محدود کردیا کیا ہے۔کارگل آپریشن کو روکا نہ جاتا تو پاک فوج یقینی طور پر مزید علاقوں پر قبضہ کرکے پاکستان کی دفاعی پوزیشن مضبوط بنا دیتی