٨ سالہ مسلمان بچی آصفہ، ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن گئی
مقبوضہ کشمیر میں ننھی آصفہ سے اجتماعی زیادتی کے بعد سفاکانہ قتل نے پورے بھارت کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔
کشمیری بچی آصفہ بانو اور اترپردیش میں بی جے پی رہنما کی جانب سے ہندو لڑکی سے اجتماعی زیادتی جیسے واقعات کیخلاف انسانی حقوق کے کارکن سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ جسٹس فار آصفہ #JusticeforAsifa کے نام سے ہیش ٹیگ بھارت میں ٹوئٹر پر مقبول ٹرینڈ بھی بن گیا ہے جس پر سماجی کارکن اور عام شہری ملک میں جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات اور مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔
لیکن جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں لوگ اس واقعے کی مذمت کررہے ہیں وہیں بی جے پی اور ہندو انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس غیر اخلاقی واقعے میں ملوث ملزمان کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں۔
کشمیر پولیس نے کٹھوعہ واقعے کی چارج شیٹ پیش کردی جس سے لرزہ خیز تفصیلات سامنے آئی ہیں جنہوں نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ پولیس کے مطابق جموں و کشمیر کے علاقے کٹھوعہ میں 10 جنوری کو مسلمان چرواہوں کے قبیلے ’بکروال‘ کی کم سن بچی آصفہ بانو کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنے گھوڑے اور بکریوں کو چَرانے میں مصروف تھی۔
ملزمان نے اغوا کے بعد 8 سالہ آصفہ کو مندر کے تہہ خانے میں قید کردیا جس کا انتظام مرکزی ملزم سنجے رام کے ہاتھ میں تھا۔ پھر بچی کو بے ہوشی کرکے متعدد بار اس سے جنسی زیادتی کی گئی۔ سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے ملزم سنجے رام کے بھتیجے نے اترپردیش کے شہر میرٹھ سے اپنے دوست کو فون کرکے بچی سے جنسی زیادتی کے لیے بلایا۔ 4 روز تک آصفہ کو مسلسل درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد ان انسان نما بھیڑیوں نے پتھر سے اس کا سر کچل کر لاش کھائی میں پھینک دی۔
اس بدکردار شخص نے اپنے بھتیجے کی مدد سے گھناؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جب کہ سفاکانہ قتل میں پولیس کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ پولیس نے مرکزی ملزم سنجے رام، اس کے بھتیجے، بیٹے اور 4 پولیس افسران سمیت 8 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ اہلکاروں پر رشوت کے عوض شواہد چھپانے اور ثبوت مٹانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ پولیس اہلکار تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا مندر میں بچی کی موجودگی سے باخبر تھے اور انہوں نے ڈھائی لاکھ روپے لے کر قتل کے ثبوت مٹانے میں تعاون کیا۔ ملزم سنجے رام نے بتایا کہ اس مذموم اور گھناؤنی حرکت کا مقصد مسلمانوں کو اس علاقے سے خوفزدہ کرکے نکال دینا تھا۔ واقعے کے بعد جموں کشمیر میں ہندوؤں اور مسلم آبادی میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جب کہ بی جے پی اور انتہا پسند ہندو جماعتوں کی جانب سے ملزم کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔
دوسری طرف اترپردیش کے علاقے اناؤنا میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سنگار نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر 17 سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ دنوں لڑکی نے ملزم کی عدم گرفتاری کیخلاف خودسوزی کی بھی کوشش کی۔
مقامی پولیس نے بی جے پی رہنما کو گرفتار کرنے کی بجائے الٹا لڑکی کے والد سریندر کمار کو گرفتار کرکے اسے دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔ اسی واقعے کا غیر اخلاقی پہلو یہ سامنے آیا کہ جب پولیس کی خصوصی ٹیم ملزم رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے کےلیے اس کے گاؤں پہنچی تو بڑی تعداد میں دیہات کے مکین گھروں سے نکل آئے اور شدید مزاحمت کرکے گرفتاری کو ناکام بنادیا۔