کیا والدین باقی بچوں کو نظر انداز کرکے ساری جائیداد ایک بچے کے نام کرسکتے ہیں؟ احادیث کی روشنی میں یہ عمل جائز ہے یا ناجائز،آپ بھی جانئے
اسلام میں وراثت کا قانون بڑا واضع اور جامع ہے لیکن معاشرتی طور پر ہمارے ملک میں جائیداد کی وراثتی تقسیم میں غیر شرعی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ،جائیداد کسی ایک کے نام کردی جاتی اور باقی اولاد کو محروم کردیا جاتا ہے ۔اس کو ہبہ کا قانون بھی کہا جاتا ہے کہ جس کے تحت والدین اپنے ایک بیٹے کو جائیداد دے دیتے ہیں اور باقی محروم رہ جاتے ہیں ۔ایسے مسائل کی وجہ سے
جہاں اسلامی روایات و فقہ کا خون ہوتا ہے وہاں نسل انسانی کا بھی خون بہتا ہے ۔جائیدا دکی تقسیم سے خونی رشتوں میں خونی جنگیں شروع ہوتی ہیں جو نسلوں تک چلتی ہیں۔بعض مکتبہ فکر کے ہاں جائیداد کسی کے نام کرنا ناجائز نہیں ۔اس بارے اسلام کیا کہتا ہے ،اور شرعی اصول و قانون کیا ہے ،اس حوالہ سے مفتی شبیر قادری کا کہنا ہے کہ والدین کا باقی اولاد کوجائیداد سے محروم کر نا
زیادتی ہے۔ ایسے والدین خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ اسلام نے والدین کو سختی سے روکا ہے کہ وہ ساری نوازشات ایک بیٹے یا بیٹی پر نہ کریں، اگر اپنی زندگی میں کچھ وقف کر رہے ہیں تو ساری اولاد میں انصاف کریں۔ ایک صحابی نے اپنی اولاد میں سے کسی ایک بیٹے کو غلام دے دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ واپس لے لو کیونکہ انہوں نے باقی بیٹوں کو نہیں دیا تھا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ’’ ان کے والد ماجد انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام دے دیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی (غلام) دیا ہے؟ عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے بھی واپس لے لو۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک بیٹے کو عطیہ دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اْنہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اولاد کے درمیان انصاف کرنے کا فرمایا۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ منبر پر فرماتے تھے کہ میرے والد ماجد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ نہ بناؤ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں
عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما سے ہے ایک عطیہ دیا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ﷺکو گواہ بناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض گزار ہوئے کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر وہ واپس لوٹ آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حاجب بن مفضل بن مہلب رضی اللہ عنہ کے والد ماجد نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔‘‘جبکہ سنن ابو داود میں الفاظ یہ ہیں ’’اپنی اولاد میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ والدین کو اولاد میں عدل وانصاف کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایک کا حق تلف کر کے دوسروں کو ہبہ کر دینا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ اولاد میں نا انصافی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ باقی اولاد اپنے حقوق سے محروم نہ ہو۔ گھر میں والد بطور سرپرست اپنی بیوی اور بچوں کا نگران ہوتا ہے، اگر والد اپنی نگرانی میں موجود افراد کے ساتھ ظلم کرے گا تو عند اللہ جوابدہ ہو گا کہ اْس نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اگر اس نے کسی کی حق تلفی کی ہو گی تو گناہگار اور مستحقِ سزا ہو گا۔
ہماری رائے میں اگر آپ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہتے ہیں اور ان کو آخرت کی سختیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کا ترکہ تمام اولاد میں تقسیم کریں۔ کیونکہ جو لوگ وراثت کا مال اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے مختلف حیلے بہانے کرتے ہیں اور دوسرے ورثاء کو وراثت سے محروم کرتے ہیں، اْن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو۔ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو‘‘
والدین کے ہبہ کے بعد اگرچہ قانوناً آپ کے بہن بھائی اس وراثت میں حصہ دار نہیں ہیں، تاہم درج بالا آیات و روایات اور عقل و اخلاق کی روشنی میں آپ انہیں وراثت میں شریک کریں۔ یہ آپ کی اپنے ساتھ اور اپنے والدین کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہوگی۔