ملک ریاض کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم ۔۔۔۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک حکم نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ، بحریہ ٹاؤن کے رہائشی تڑپ اُٹھے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری زمین کو بر یہ ٹاؤن کو الاٹ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سرکاری زمین کو واپس لینے کا حکم جاری کر دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نیب اور سروے جنرل کے نقشوں پر بھی اظہار برہمی کر دیا ہے۔
پبلک نیوز کے مطابق جسٹس عظمت شیخ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رُکنی بنچ نے بحریہ ٹاؤن فیصلوں پر علمدرآمد کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس عظم سعید کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے استفسار کیا گیا کہ آپ نے کہا تھا کہ آپ جرمانے کی پیشکس کریں۔ جس کا جواب دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کا کہنا تھا کہ انکی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے تینوں منصوبوں کے حوالے سے پیشکش بنا لی گئی ہے ، جسٹس عظمت سعید کے استفسار پر
بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے پاس 16 ہزار 8 سو ایکڑ زمین ہے۔ جس پر جسٹس عظم سعید کی جانب سے کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی حد بندی کی جا چکی ہے۔ جس پر ڈپٹیی سرو جنرل بھی آج عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے، جنہوں نے عدالتِ عظمی کو بتایا کہ 16 ہزار 8 سو چھیانوے ایکڑ اراضی بحریہ ٹاؤن کے پاس ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈپٹی سروے جرنل کے بیانات پر تحفظات کا اظہار کی اگیا ہے، عدالت کی جانب سے
ریمارکس دیئے گئے کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے ملک میں لوٹ مار مچا رکھی ہے، جسٹس عظمت سعید کھوسہ کی جانب سے کمشنر کو مکاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے گئے کہ زمین بھی لوگوں کی تھی اور حفاظت بھی آپ لوگوں کو ہی کرنی تھی ۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے تمام سرکاری زمین کو بحریہ ٹاؤن انتظامیہ سے واپس لینے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔