زرداری تو اس وقت بمبینو سینما چلاتاتھا،ملک ریاض کے وکیل اور چیف جسٹس کا دلچسپ مکالمہ
جعلی اکاﺅنٹس کیس کی سماعت کے دوران اس وقت انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب ملک ریاض کے وکیل طارق رحیم نے کہا کہ پلاٹ ہم نے بہت پہلے لیا تھا، 1980 میں زرداری کہاں تھا؟ وہ تو بمبینو سینما چلاتا تھا۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ زیادہ جذباتی نہ ہوں، ریاض سے پوچھ لیں یہ 1984 میں کہاں تھا۔ اس نے پہیے لگائے، میں بتا دوں کہ اس کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں، میں نے ایک ہزار ارب کہا تھا، آپ 500 ارب دیدیں، میں عمل درآمد بنچ کو کہہ دوں گا، بلکہ خود عمل درآمد بنچ میں بیٹھ کر سن لوں گا۔
نوجوان صحافی وحید مرادنے مقامی نیوزویب سائٹ کیلئے لکھا کہ جب ملک ریاض کے وکیل خواجہ طارق رحیم (سابق گورنر پنجاب) نے عدالت میں جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ باغ قاسم کی زمین قانون اور قواعد کے مطابق حاصل کی، اس پر بنائے گئے دونوں ٹاورز تمام قوانین پر عمل کرتے ہوئے بنائے گئے، غیر قانونی ہونے کی جے آئی ٹی کی رپورٹ سراسر غلط ہے۔ ملک ریاض بولے کہ میں نے اس ملک کو 67 منزلہ بلڈنگ دی ہے، یہ دونوں ٹاور بلند ترین ملکی عمارت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ باغ قاسم ہو، ملیر کی زمین ہو، تخت پڑی راولپنڈی ہو، بحریہ انکلیو ہو، ہنڈی کا کام ہو، جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں ملک ریاض نکلتا ہے۔اس موقع پر ملک ریاض نے کہا کہ میں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملیر کی زمین پر اسی طرح بحریہ بنایا، ہم نے دیکھا کہ حکومت کے تمام اہم آپ سے ملے ہوئے تھے۔ملک ریاض نے دوبارہ بولنے کی کوشش کی توچیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی، بحریہ کراچی کی بتیاں بند کیں، بحریہ کے ہزاروں ملازمین کو اکسا کر عدالت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔
عدالت میں پیش ہو کر ملک ریاض نے کہا کہ میں سارا کچھ دینے کو تیار ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے آپ کو ایک ہزار ارب کا کہا تھا، اب 500 ارب روپے دے دیں ہم آپ کو صاف کر دیتے ہیں۔ ملک ریاض نے کہا کہ میں نے پورے 22 سالہ کیریئر میں ہزار یا گیارہ سو ارب کی سیل کی ہوگی، آپ حکم کریں گے تو ہم سیٹل کرنے کیلئے تیار ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے ارب آپ کو اپنی بقیہ زندگی کیلئے چاہئیں؟ وہ لے لیں اور باقی اس ملک کو چھوڑ دیں۔