”ایک مرد زیادہ سے زیادہ کتنی دیر تک ….“ ایسا شرعی مسئلہ جو تارکین وطن مردوں کو لازمی جانناچاہئے

شادی شدہ مرد اگراپنی عورت کے بغیر رہنا محال سمجھتا ہے توایک انسان ہونے کے ناطے اس مرد کی بیوی بھی ایسے جذبات کی حامل ہوسکتی جو بیروں ملک چلا گیا ہو اور وہ اسکے ہجر میں اداس رہنے لگتی ہے ۔بسا اوقات ایسی سماجی برائیوں کے باعث بیوی کمزوربھی پڑسکتی ہے ۔ان حالات میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ایک شادی شدہ مرد زیادہ سے زیادہ کتنی مدت تک بیوی سے دور بیرون ملک قیام کر سکتا ہے؟ایک تارکین وطن یا گھر سے دور نوکری کرنے والے مسلمان کو جدید فقہی مسائل کا علم ہوتو طرفین اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیتے ہیں لیکن زیادہ ترلوگ لاعلمی میں رہتے اور اپنی اخلاقی اور ازدواجی زندگی تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔ایک تارکین وطن نے جب یہ مسئلہ

مفتی صاحبزادہ بدر عالم جان کے سامنے رکھا تو انہوں نے فتویٰ آن لائن میں اس سوال کا کہ بیرون ملک جاب کرنے والوں کو ایک سال بعد اور بعض کو دو سال بعد چھٹی ملتی ہے اور بعض افراد تو پیسے کی لالچ میں جلدی واپس جاتے ہی نہیں ہیں۔ ایک شادی شدہ مرد زیادہ سے زیادہ کتنی مدت تک بیوی سے دور بیرون ملک قیام کر سکتا ہے ، اس پر انہوں نے کہا کہ تاریخ الخلفاء میں جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپؓ رات کے وقت گشت کر رہے تھے تو ایک گھر سے ایک عورت کی آواز آرہی تھی اور وہ کچھ اشعار

پڑھ رہی تھی۔ مفہوم یہ تھا کہ اس کا شوہر گھر سے کہیں دور چلا گیا تھا اور وہ اسکے فراق میں غمزدہ تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھر آئے اور اپنی زوجہ سے دریافت کیا کہ شادی شدہ عورت شوہر کے بغیر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے تو زوجہ نے جواب دیا کہ تین سے چار ماہ۔ آپ نے حکم جاری کر دیا کہ ہر فوجی کو چار ماہ بعد ضرور چھٹی دی جائے تاکہ ہر فوجی اپنی بیوی کا حق ادا کر سکے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ چار ماہ تک اگر شوہر عورت کا حق ادا نہ کرے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ خلع کا مطالبہ کرے یہ اس صورت میں ہے جب عورت راضی نہ ہو۔ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ وہ عورت کو راضی رکھے اور ہوسکے تو کم از کم سال میں ضرور اپنے گھر کا چکر لگائے، اگر ممکن ہو تو عورت کو اپنے ساتھ ہی رکھے۔ باہمی رضامندی سے اگر زیادہ وقت دور رہ سکتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر فتنہ کا خوف ہو تو پھر رضامندی بھی بے فائدہ ہے کیونکہ زیادہ عرصہ تک گھر واپس نہ آنا بہت سے نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.