مارک زکربرگ کیخلاف بغاوت ہو گئی
’’اب فیس بک چھوڑنےکاوقت ہے،‘‘ فیس بک کے بانیوں میں شامل کرس ہیوز نے جمعرات کو یہ کہتے ہوئےاس خبرکو جاری کیاکہ کمپنی بہت بڑی اور طاقتورہےکہ 34سالہ چیئرمین مارک زکربرگ کی ’’غلبےکی خواہش‘‘ نے امریکی جمہوریت کو خطرہ میں ڈال دیا۔‘‘ مارک زکربرگ کی قابلیت: نیویارک میں پیدا ہونےوالے مارک ایلیٹ زکربرگ کی دولت فروری 2019میں 9375.3ارب روپےتھی، اس طرح وہ واحد شخص جو 50سال سے کم عمر ہیں اور فوربز کی 10امیرترین افرادکی فہرست میں شامل ہیں، اور واحد شخص ہیں جو 40سے کم عمری میں 20امیرترین افرادکی فہرست میں شامل ہوئے۔ 2018کےاختتام تک فیس بک کی مالی حیثیت: مارک زکربرگ، ایڈورڈوسیورن، انڈریومک کولم، ڈسٹن موسکووٹز اور کرس ہیوزکی جانب سے 4فروری2004کو وجود میں آنےوالی اس کیلی فورنیا سے کام کرنےوالی سماجی رابطے کی ویب سائٹ آج 7873.158ارب روپےکے زرمبادلہ کےذخائر، آپریٹنگ انکم، 3512.733ارب روپے، مجموعی آمدنی، 3117.651ارب روپے،اثاثہ جات 13724.094ارب روپے(تقریباًپاکستانی
کےبیرونی قرضوں کےبرابر)، شیئرز کی ویلیو11861.907ارب روپے رکھتی ہے۔ تحقیق سےظاہرہوتاہےکہ دنیابھرمیں اس کے30275ملازمین ہیں، دسمبر 2018تک فیس بک کے ماہانہ 2.3ارب سرگرم صارفین تھے، یہ عیسائیت کے پیروکاروں کی تعدادسے زیادہ ہے۔ کرس ہیوز کے مطابق فیس بک 70.5کھرب روپےکی مالک ہےجو دنیا کی سوشل نیٹورکنگ ریوینیوکے80 فیصد کے برابر ہے، اس سےباعث اس کی اجارہ داری قائم ہے، یہ اپنےتمام مخالفین کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اورسوشل نیٹورکنگ کےمقابلے بھی ختم کررہی ہے۔ 2018میں فیس بک کی فی شیئرآمدنی میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں حیران کن طورپر40فیصداضافہ ہوگیاتھا۔ سوشل نیٹورکنگ کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکرنےکےبعدفیس بک کےبانی مارک زکربرگ کمیونیکیشن کے تین اہم پلیٹ فارمز فیس بک، انسٹاگرام اور وٹس ایپ کو کنٹرول کرتے ہیں، یہ سب اربوں لوگ روزانہ استعمال کرتے ہیں، اس سےان کےپارٹنرکرس کویہ مانناپڑاکہ مارک کااثرورسوخ پریشان کن ہے، اتنا کسی دوسرےنجی شعبےیاحکومت میں کسی کانہیں ہے۔’’نیویارک ٹائمز‘‘ لکھتاہے:’’فیس بک کابورڈورک ایک اوورسیزکےمقابلےمیں ایک ایدوائزری کمیٹی کی طرح ہے، کیونکہ 60فیصد ووٹنگ شیئرزمارک کنٹرول کرتے ہیں۔ لوگ اپنی نیوزفیڈمیں کیادیکھیں، وہ کس طرح کی پرائیویسی سیٹنگ استعمال کرسکتے ہیں اور کون سا پیغام انھیں موصول ہو، یہ طےکرنےکیلئےفیس بک کاالگورتھم
کس طرح سیٹ کرنا ہے، اس کافیصلہ مارک اکیلاہی کرسکتاہے۔ پُرتشدد اوراشتعال انگیزتقاریرکوکس طرح الگ کرنا ہےاس کیلئےوہ ہی اصول طےکرتاہےاوروہ حاصل کرکے، بلاک کرکےیا کاپی کرکےکسی بھی مخالف کوشٹ ڈائون کرنےکاانتخاب کرسکتاہے۔‘‘ نامورامریکی میڈیا ہائوس نے ہیوز کےحوالےسےیہ لکھا:’’مارک ایک اچھا اور مہربان شخص ہے۔ لیکن میں ناراض ہوں کہ ترقی پر اس کےفوکس کےباعث اس نےکلکس کیلئے سیکیورٹی اور تہذیب کوقربان کردیا۔ میں خود میں اور ابتدائی فیس بُک ٹیم سےناراض ہوں کہ انھوں نے اس بارے میں مزید نہیں سوچا کہ نیوز فیڈ کاالگورتھم کس طرح سے ہماری ثقافت کو تبدیل کرسکتا ہے، انتخابات پر اثرانداز ہوسکتاہے اورقوم پرست رہنمائوں کو مضبوط کرسکتاہے۔‘‘ ہیوزنے مزید کہااور ’’نیویارک ٹائمز‘‘نےاس کی مزید باتوں کاحوالہ دیا:’’اور میں پریشان ہوں کہ مارک کےاردگردکی ٹیم اس کے خیالات کوچیلنج کرنےکی بجائےنافذکردیتی ہے۔ حکومت کو چاہیےکہ مارک کااحتساب کرے۔ کافی عرصے تک قانون ساز فیس بک کی تیزی سے
ترقی پر حیران ہوتے رہےاور اپنی ذمہ داری کو نظرانداز کرتے رہےتاکہ یہ یقینی بنائیں کہ امریکی محفوظ ہیں اور مارکیٹ میں مقابلہ بازی ہے۔ اب کسی بھی دن فیڈرل ٹریڈکمیشن کمپنی پر 705ارب روپے جرمانہ عائد کرسکتی ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہےنہ ہی فیس بک کی یہ پیش کش کہ کسی طرح سےپرائیویسی کی رکائوٹ لگائی جائے۔ ہمارے پاس پہلے ہی اوزارموجود ہیں کہ ہم فیس بک کے غلطے کو چیک کرسکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم انھیں بھول گئے ہیں۔ امریکا اسی نظریے پر بناتھاکہ طاقت کسی بھی ایک شخص میں مرکوز نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ ہم سب غلطیوں کے پتلے ہیں۔ اسی لیے بانیوں نے کچھ چیکس اینڈ بیلنسز بنائے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا:’’ 2005میں فیس بک کے پہلے آفس میں تھا جو پالوآلٹومیں ایمرسن سٹریٹ میں تھا، اس وقت میں نے یہ خبر پڑھی کہ رپرٹ مرڈوک کی نیوز کارپوریشن سوشل
نیٹورکنگ سائٹ مائی سپیس کو8178 کروڑ روپےمیں خریدرہی ہے۔ میرے دماغ کی بتی گُل ہوگئی اور ہم میں سے ایک گروپ کی بورڈز پر کام کررہاتھا، ہمارے 21سال کے چہرے ہماری سکر ینو ں کی چمک سے آدھے چمک رہے تھے۔ میں نے ’’وائو‘‘سنا اور وہ خبر خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی، یہ خبر اےاوایل انسٹنٹ میسنجرکی جانب سے موصول ہوئی تھی۔ میری آنکھیں کھل گئی تھیں۔ واقعی، 8178 کروڑ روپے؟ اگر مائی سپیس8178کروڑ روپےکی ہوسکتی ہے تو فیس بک اس سے دوگنی قیمت کی ہوسکتی ہے۔‘‘ فیس بک کی اجارہ داری بھی اپنے استعمال کے اعدادوشمار میں واضح ہے۔۔