”آپ کم از کم ’کوما‘ اور ’فل سٹاپ‘ تو نہ پڑھیں ۔۔۔۔۔۔“ احتساب عدالت میں جج محمد بشیر کے ٹوکنے پر مریم نواز نے ایسا جواب دے دیا کہ کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی

احتساب عدالت میں شریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔احتساب عدالت کے

جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں جب کہ ریفرنس میں نامزد تینوں ملزمان نواز شریف ،ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔۔سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنا بیان پڑھ کر سنایا۔لیکن مریم نواز کے بیان پڑھنے کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب مریم نواز نے اپنے بیان میں کومہ اور فل سٹاپ بھی پڑھنا شروع کر دیا۔جس پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ بیان پڑھنے کے دوران کومہ تو نہ پڑھیں۔جس پرمریم

نواز نے جواب دیا کہ مجھے میرے وکیل نے پڑھنے کو کہا میں نے پڑھ دیا۔مریم نواز نے اپنے بیان کے آغاز پرپاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور اس کی رپورٹ پر تنقید کی اور کہا کہ جے آئی ٹی اور جے آئی ٹی رپورٹ اس کیس میں غیر متعلقہ ہیں۔مریم نواز نے کہا کہ 2000 میں عامرعزیزبطورڈائریکٹربینکنگ کام کررہےتھے ۔ عامرعزیزکو 2000میں مشرف حکومت نےڈیپوٹیشن پرنیب میں تعینات کیا ۔ بلال رسول کےرکن جے آئی ٹی بننےتک وہ پی ٹی آئی کی سپورٹرتھے۔ عامرعزیز کو جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔ عامرعزیز نے مشرف کے

دورمیں حدیبیہ پیپرملزکی تحقیقات کیں۔ عامرعزیز 2000 میں میرے اورخاندان کیخلاف دائر ریفرنس میں تفتیشی تھے۔جےآئی ٹی نےشاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں۔ بریگیڈیئرنعمان اور کامران کی جے آئی ٹی میں تعیناتی مناسب نہیں تھی ۔ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیرالتواہے ۔ عرفان منگی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کردیاگیا۔ اطلاعات کے مطابق بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کاحصہ تھے۔ ڈان لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تناؤمیں اضافہ ہوا، ۔

جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے۔ نعمان سعید کو آؤٹ سورس کیا گیا۔ انکی تنخواہ ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔ عدالت نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیئے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جا سکے۔ ایسے اختیارات دینا غیرمناسب اورغیرمتعلقہ تھے۔ جےآئی ٹی کی 10والیم پر مشتمل خودساختہ رپورٹ غیرمتعلقہ تھی۔ جےآئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹمیں دائر درخواستیں نمٹانے کیلئے تھی۔ ان درخواستوں کوبطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.