اگر یہ عورت میرے تصرف میں ہو گی تو تمہاری بہن ہے ورنہ یہ تم سب کے لیے موٹر ہے ۔۔۔۔۔ موجودہ دور کے مشہور مسلمان اسکالر کےرنگین کارناموں پر بی بی سی کی خصوصی رپورٹ ملاحظہ کیجیے

عدنان اکتار ترکی کے ایک اسلامی فرقے کے رہنما اور ٹی وی پر تبلیغ کرنے والی شخصیت جنھیں 235 پیروکاروں سمیت مختلف الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔عدنان اکتار پر جرائم پیشہ گینگ قائم کرنے، دھوکہ دہی اور جنسی استحصال کے الزامات ہیں۔ترکی کی نیوز ایجنسی اناطولو کے مطابق پولیس نے

پانچ مختلف صوبوں میں کئی جائیدادوں پر کارروائی کی ہے تاکہ مالی جرائم کے حوالے سے شواہد حاصل کیے جا سکیں۔خیال کیا جا رہا ہے کہ گرفتاریاں ان ہی مقامات پر کی گئی ہیں جبکہ عدنان اکتار کو استنبول میں واقع ان کے مکان سے گرفتار کیا گیا۔یہ دوسرا موقع ہے کہ عدنان اکتار کا فرقہ زیر تفتیش آیا ہے اور اس بار انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔اس سے پہلے 1999 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کے الزامات میں چھاپے مارے گئے تھے لیکن اس مقدمے کو بعد میں خارج کر دیا گیا تھا۔عدنان اکتار نے 1982 میں استنبول میں اپنی اسلامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت سے عدنان اکتار نے بہت دولت جمع کی اور اثرو رسوخ بڑھایا۔ اگرچہ ماہرین

کے مطابق یہ جاننا یا معلوم کرنا مشکل ہے کہ ان کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے۔نظریہ:معقول حد تک ’خطرناک واہمہ ساز‘ یا ’بارسوخ مفکر‘ ترکی اور خطے میں ایک جانے پہچانے کردار ہیں۔ بنیادی طور پر عدنان نے يہود دشمنی کی تبلیغ کی۔ وہ ہولوکاسٹ سے انکار کرتے ہیں اور بین الاقوامی یہودی تنظیم فری میسن کے مخالف ہیں۔ ان خیالات کے علاوہ وہ ارتقا کے نظریے کے بھی شدید مخالف ہیں۔2010 میں بی بی سی کے اینڈریو مار کو دیے گئے

انٹرویو میں عدنان اکتار نے ڈارون کے بارے میں کہا تھا کہ وہ پرنسپل ہیں جن سے دور حاضر کے دہشت گرد متاثر ہیں۔انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ’ ہٹلر، موسولینی، سٹالن اور دیگر مشہور دہشت گردوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ ڈارون کے زیر اثر ہیں اور ڈارون کے بغیر دہشت گردی تقریباً ناممکن ہے۔‘عدنان

اکتار نے دعویٰ کیا تھا کہ ہٹلر کو برطانیہ کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ اقتدار میں لائی تھی۔ ’ڈیپ سٹیٹ‘ ایک سازشی نظریہ ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طاقتور لوگوں کا ایک گروپ کا حکومت اور فوج کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور اس گروہ میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ حکومتی پالیسی کو کنٹرول اور ساز باز کر سکے۔امریکہ میں نائن الیون حملے کے بعد عدنان اکتار نے خود کو بین المذاہب کے کارکن کے طور پر خود کو پیش کرنا شروع کیا تھا جو مذاہب کے درمیان بات چیت کی وکالت کر سکتا ہے اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مشترکہ محاذ قائم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔حال ہی میں عدنان نے ایک ٹی وی چینل شروع کیا ہے جس کو وہ اپنے عقائد کی تبلیغ جس میں بالخصوص اسلام کی تشریح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ٹی وی پر نشریات کے دوران کئی کتابیں دکھائی دیتی ہیں جن پر ان کا قلمی نام ہارون یحییٰ تحریر ہے۔ ان میں سے بعض کتابوں کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں ’برطانوی ڈیپ سٹیٹ‘ کی ترکی اور خطے میں خفیہ سرگرمیوں کو افشا کیا گیا ہے۔اگرچہ عدنان ترکی میں صدارتی نظام کو خطرناک قرار دیتے ہیں لیکن وہ صدر رجب طیب اردوغان کے شدید حامی ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں اور انہیں ایک بہادر جوان جنگجو کہتے ہیں۔رنگین طرز زندگی:عدنان اکتار دنیا کے اپنے

متنازع خیالات کے علاوہ اپنی پرتعیش طرز زندگی کے حوالے سے مقبول ہیں اور اس کی سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کی جاتی ہے۔وہ استنبول میں ایک شاندار محل میں رہتے ہیں جہاں اکثر اوقات ان کی نیم برہنہ خواتین کے درمیان تصاویر سامنے آتی ہیں۔ان کے پیروکار شہر کے مہنگے علاقوں میں واقع اپنے اپارٹمنٹس سے براہ راست دکھائی دیتے ہیں اور یہ تین سے چار افراد کے گروپ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ترکی کے صحافیوں کے مطابق عدنان کے کچھ پیروکار دن میں کام کرتے ہیں جب کہ دیگر ان کے فرقے کے حوالے سے کتابیں تحریر کرتے ہیں، میڈیا پر تشہیر کرتے ہیں یا تنظیم کے لیے کارکن بھرتی کرتے ہیں۔ہارون یحییٰ کے نام سے

کتابوں میں ’ نظریہ ارتقاء کے جھوٹ‘ کے بارے میں بتایا گیا ہے اور یہ کتابیں سرکاری حکام، غیر ملکی سفارت کاروں اور صحافیوں کو ارسال کی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ وہ ماہ صیام میں پرتعیش افطاری کرانے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں یہ افطار ڈنر استنبول کے مہنگے ہوٹل میں رکھا جاتا ہے جس میں بین الاقوامی تنظیموں کے ارکان اور سیاست دان مدعو کیے جاتے ہیں۔چلبلی لڑکیوں‘ کا ذاتی حرم:مذہبی مبلغ عدنان اکتار کا سب سے متنازع پہلو ان کی ’ خواتین پیروکاروں کی فوج‘ ہے جو بہت زیادہ ہار سنگار کرتی ہیں اور بہت کم کپڑوں میں ملبوس ہوتی ہیں اور ان خواتین کو اکثر عدنان کا چلبلی لڑکیوں کا حرم کہا جاتا ہے۔عدنان کی تنظیم کو ترک کرنے والے ارکان دعویٰ کرتے ہیں کہ عدنان اپنے پیروکاروں کی برین واشنگ کرتے ہیں، انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے اور جنسی غلام بنایا جاتا ہے اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔اطلاعات کے مطابق عدنان اپنے پیروکاروں کو خوبصورت خواتین کی تلاش کا کہہ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ امیر گھرانوں کے مردوں کو تلاش کر کے تنظیم میں شامل کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ان کے مریدوں کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان میں سےاکثریت کو نجی یونیورسٹیز سے بھرتی کیا گیا۔

تنظیم میں شامل ہونے والی خواتین کے رشتہ دار بتاتے ہیں کہ ایک بار بھرتی ہونے کے بعد خاتون کا خاندان کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور پھر دوبارہ اپنے خاندان کے ساتھ بات نہیں کرتی۔1999 میں تحقیقات کے دوران پولیس کے سامنے آنے والے شواہد میں مبینہ طور پر خواتین کو قائل کیا جاتا ہے کہ وہ سیکس کے سیشنز میں شرکت کریں اور اس دوران ان کی تصاویر بنائی جاتی ہیں تاکہ ان کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے اگر کوئی فرقے سے نکلنا چاہتا ہے یا اس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس وقت ترکی کی ماڈل آبرو سمشک نے سیکس ٹیپ کے ذریعے فرقے پر بلیک میل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔فرقے کے سابق ارکان کے مطابق عدنان اکتار سے شادی کرنے پر فرقے میں شامل خاتون دوسرے مرد ارکان کے لیے ’ بہن‘ قرار دے دی جاتی ہے اور مرد ارکان اس

سے جنسی تعلق قائم نہیں کر سکتے۔مہمانوں میں مختلف مذاہب کے افراد شامل ہوتے ہیں بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کوئی خاتون’ بہن‘ نہیں بنتی تو اس کو ’موٹر‘ قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ متعدد ساتھ سیکس کرتی ہے اور مرد ارکان کو اجازت ہوتی ہے وہ ’ موٹر‘ سے سیکس کر سکتے ہیں۔ماضی میں عدنان ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں اور اپنے ذات پر ان حملوں کو برطانوی خفیہ سروسز کی نگرانی میں ہونے والی بین الاقوامی سازش قرار دے چکے ہیں۔اسرائیل کے دوست:ماضی میں یہود مخالف رائے اور تنقید کے برعکس عدنان اکتار کے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔عدنان اور ان کی تنظیم کے متعدد ارکان کئی بار مختلف مواقع پر اسرائیل جا چکے ہیں اور وہاں ان کی اعلیٰ مذہبی اور سیاسی شخصیات سے ملاقات ہو چکی ہیں جبکہ بعض سینیئر اسرائیلی حکام عدنان سے ملنے ترکی بھی آ چکے ہیں۔ایک برس پہلے عدنان کی سربراہی میں ایک وفد نے اسرائیلی پارلیمان کا دورہ کیا تھا جہاں اعلیٰ حکام سے ملاقات کا موقع ملا اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو سے خصوصی طور پر تعارف کرایا گیا تھا۔(ش۔ز۔م)

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.